پاکستان نے امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے حالیہ دنوں جاری کردہ مذہبی آزادی سے متعلق سالانہ رپورٹ میں پاکستان کو خصوصی تشویش کے حامل ملکوں میں شامل کرنے کے اقدام کو ’’یکطرفہ اور من مانا‘‘ قرار دیا ہے۔
ایک بیان میں پاکستان دفتر خارجہ کی ترجمان نے منگل کے روز کہا ہے کہ ’’یہ اعلان نہ صرف پاکستان کے زمینی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتا، بلکہ ساری کاوش کے قابل اعتبار ہونے اور شفافیت پر سوالیہ نشان پیدا ہوتے ہیں‘‘۔
20 دسمبر کو جاری ہونے والی اس رپورٹ میں امریکی وزیر خارجہ نے کہا تھا کہ برما، چین، اریٹریا، ایران، شمالی کوریا، پاکستان، سعودی عرب، تاجکستان اور ترکمانستان ان ملکوں میں شامل ہیں جنھیں بین الاقوامی مذہبی آزادی کے 1998ء ایکٹ کی رو سے خصوصی تشویش کے حامل ملک قرار دیا گیا ہے۔
انھوں نے کہا تھا کہ ان ملکوں میں ’’مذہبی آزادی کے معاملات میں منظم، جاری اور مختلف النوع قسم کی خلاف ورزیاں نہ صرف جاری ہیں بلکہ انھیں برداشت کیا جا رہا ہے‘‘۔
پاکستان دفتر خارجہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ ’’نشاندہی کرنے کا یہ عمل ملکوں کا انتخاب کر کے انھیں ہدف بنانے کے مترادف ہے‘‘؛ اور یوں، یہ رویہ مذہبی آزادی کو فروغ دینے کے اعلانیہ مقصد کے حصول میں معاون نہیں بن سکتا۔
ترجمان نے کہا کہ ’’پاکستان کثیر مذہبی اور مختلف النوع اکائیوں کا ملک ہے جہاں تمام عقائد کے ماننے والوں کو آئین کے تحت تحفظ حاصل ہے۔ انتظامیہ، مقننہ اور عدلیہ سمیت تمام ملکی شاخیں مل کر یہ بات یقینی بناتی ہیں کہ پاکستان کے تمام شہریوں کو اپنے مذہب پر عمل پیرا ہونے کی مکمل آزادی ہو، جس میں عقائد، ذات یا مسلک کی بنیاد پر کوئی تفریق نہ برتی جائے‘‘۔
ساتھ ہی، ترجمان نے کہا کہ ’’ملک کی اعلیٰ عدلیہ نے سنگ میل نوعیت کے فیصلے دیے ہیں جن میں اقلیتوں کی عبادت گاہوں کی حرمت اور سیکیورٹی کو یقینی بنانے کے احکامات شامل ہیں‘‘۔
انھوں نے کہا کہ پاکستان نے امریکہ سمیت بین الاقوامی برادری سے بھی رابطہ جاری رکھا ہے، تاکہ مذہبی آزادی کے معاملات سے متعلق بہتر آگہی حاصل کی جا سکے۔ اس سال کے اوائل میں عالمی سطح پر مذہبی آزادی کے باہمی مقاصد کو فروغ دینے کے مکالمے کے حوالے سے بین الاقوامی مذہبی آزادی پر مامور امریکی ایمبیسڈر ایٹ لارج، سینیٹر سیموئل براؤن بیک کا پاکستان میں خیر مقدم کیا گیا تھا۔ ترجمان نے کہا کہ یہ امر افسوس ناک ہے کہ ’’اس تعمیری رابطے کو نظرانداز کیا گیا ہے‘‘۔
انھوں نے الزام لگایا کہ امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے ’’نشاندہی کا یہ عمل سرسری توجہ اور طرفداری پر مبنی ہے، جس کو یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ اس میں بھارت کو جان بوجھ کر شامل نہیں کیا گیا‘‘، جو کہ، ترجمان کے بقول، ’’مذہبی آزادی کی خلاف ورزی کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے‘‘۔ اس ضمن میں، ترجمان نے کہا کہ امریکی کانگریس نے دو سماعتیں کی ہیں جن میں 70 سے زائد امریکی قانون سازوں نے بھارت کے ہاتھوں کشمیریوں سے برتے گئے رویے اور ایک طویل عرصے سے بھارتی جموں و کشمیر میں ان کے بنیادی حقوق کو مبینہ طور پر سلب کیے جانے پر سر عام اظہار تشویش کر چکے ہیں۔
دفتر خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ ساتھ ہی جنیوا میں انسانی حقوق کے حوالے سے اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر، نیو یارک میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اور متعدد یورپی ملکوں کی پارلیمان نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔
پاکستان ترجمان کے بقول، ’’آج کے بھارت میں اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو سنگسار کیا جاتا ہے، ظلم و ستم روا رکھے جاتے ہیں اور قتل پر بھی پوچھ گچھ نہیں ہے‘‘۔ اس ضمن میں، بھارتی حکومت کی جانب سے شہریت کے ترمیمی بل کی منظوری کی جانب توجہ مبذول کرائی گئی ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ مذہبی آزادی کو عالمی تشویش کے حامل چیلنج درپیش ہیں، جنھیں حل کرنے کے لیے تعاون کی بنیاد پر کوششوں کی ضرورت ہے۔
ترجمان نے کہا کہ امریکہ سمیت متعدد مغربی ملکوں میں اسلامو فوبیا کے بڑھتے ہوئے رجحان کے بارے میں پاکستان اپنی تشویش کا اظہار کرتا رہا ہے۔ بقول ان کے، ’’اعتماد اور سمجھ بوجھ کی فضا کو فروغ دے کر ہی مذہبی آزادی کے مقصد کو حاصل کیا جا سکتا ہے اور انھیں تحفظ دیا جا سکتا ہے‘‘۔