رسائی کے لنکس

حزبِ مخالف کا وزیرِ اعظم، اسپیکر کے لیے مشترکہ امیدوار لانے کا فیصلہ


وزیر اعظم کا امیدوار پاکستان مسلم لیگ(ن)، اسپیکر کے لیے پاکستان پیپلز پارٹی اور ڈپٹی اسپیکر کے لیے متحدہ مجلس عمل کا امیدوار ہوگا۔

پاکستان میں تحریک انصاف کی وفاق میں متوقع حکومت کو ’’ٹف ٹائم دینے کیلئے‘‘ حزب مخالف کی کُل جماعتی کانفرنس نے وزیر اعظم، پارلیمان میں اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کیلئے ’’مشترکہ امیدوار‘‘ لانے کا فیصلہ کیا ہے۔

وزیر اعظم کا امیدوار پاکستان مسلم لیگ(ن)، اسپیکر کے لیے پاکستان پیپلز پارٹی اور ڈپٹی اسپیکر کے لیے متحدہ مجلس عمل کا امیدوار ہوگا۔

اجلاس میں آئندہ کا لائحہ عمل تشکیل دینے کیلئے 16 رکنی ایکشن کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے۔ کُل جماعتی کانفرنس میں شامل تمام اپوزیشن جماعتوں نے پارلیمان میں حلف اٹھانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ ایوان بالا میں قائد حزب اختلاف شیری رحمان نے بتایا کہ ’’ایوان میں جا کر ہم اس کٹھ پتلی حکومت کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے‘‘۔

اپوزیشن جماعتوں کی کل جماعتی کانفرنس کا دوسرا اجلاس اسپیکر قومی اسمبلی کی رہائش گاہ پر ہوا جس کی صدارت پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف نے کی۔ اجلاس میں انتخابات 2018ء میں مبینہ دھاندلی اور اس کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کا جائزہ لیا گیا۔

اجلاس میں پیپلز پارٹی، پاکستان مسلم لیگ ن، مذہبی جماعتوں کے اتحاد ایم ایم اے، عوامی نیشنل پارٹی، نیشنل پارٹی کے رہنماؤں نے شرکت کی۔ لیکن، متحدہ قومی موومنٹ اور پی ایس پی کے رہنما غیر حاضر رہے۔ اجلاس میں وزیرِ اعظم، سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے انتخاب کے معاملے پر غور کیا گیا۔

اپوزیشن کے اس اہم اجلاس میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور سابق صدر آصف زرداری کی شرکت متوقع تھی۔ لیکن، ان کی جگہ پارٹی وفد نے شرکت کی۔

اجلاس کی کارروائی کے بارے میں بتاتے ہوئے ن لیگ کی ترجمان مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمان سمیت تمام اپوزیشن جماعتوں نے پارلیمنٹ میں حلف اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے، اور پارلیمنٹ کے اندر اور باہر کے لائحہ عمل کے بارے مین بھی جائزہ لیا گیا۔

انہوں نے بتایا کہ ’’تمام سیاسی جماعتوں نے 16 رکنی ٹیم بنائی ہے جو آئندہ کا لائحہ عمل طے کرے گی۔ ہم پارلیمنٹ پر لعنت بھیجنے والوں کو آرام سے بیٹھنے نہیں دیں گے، پی ٹی آئی والوں کو بتائیں گے کہ اصل اپوزیشن کیا ہوتی ہے‘‘۔

اجلاس کے بعد میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے پیپلز پارٹی کی رہنما شیری رحمان نے کہا کہ تمام اپوزیشن جماعتوں نے ایوان میں جانے اور حلف اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ایوان میں جا کر ہم اس کٹھ پتلی حکومت کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے۔

انہوں نے بتایا کہ ’’کچھ پوائنٹس پر تمام سیاسی جماعتوں کا اتفاق ہو چکا ہے، اپوزیشن جماعتوں نے متفقہ فیصلہ کیا ہے کہ وزیرِ اعظم کا امیدوار مسلم لیگ (ن) کی جانب سے ہوگا جبکہ اسپیکر کیلئے پیپلز پارٹی اور ڈپٹی سپیکر کیلئے متحدہ مجلس عمل اپنا امیدوار میدان میں لائے گی‘‘۔

شیری رحمان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن اتحاد نے جعلی الیکشن کو مسترد کرتے ہوئے ایوانوں کے اندر اور باہر بھرپور احتجاج کا فیصلہ کیا ہے۔ تمام اپوزیشن جماعتیں پارلیمنٹ میں مضبوط اپوزیشن کا کردار ادا کرینگی۔

ان کا کہنا تھا کہ’’16 رکنی ورکنگ کمیٹی بنا لی ہے جو ٹی آر اوز بنائے گی، ہر سیاسی جماعت اپنا اپنا وائٹ پیپر جاری کرے گی‘‘۔

متحدہ مجلس عمل کے لیاقت بلوچ نے میڈیا کو بتایا کہ ’’سب جماعتوں نے انتخابات کو دھاندلی زدہ قرار دیا ہے۔ ہم ایوان کے باہر اور اندر ملکر احتجاج ریکارڈ کرائینگے، سب کا متفقہ فیصلہ ہے کہ ایوان میں جاکر اس کا مقابلہ کریں گے، ہم متحد ہوکر آئین اور جمہوریت کی حفاظت کریں گے‘‘۔

پاکستان مسلم لیگ ن کے مرکزی رہنما احسن اقبال نے کہا کہ ’’پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ تمام بڑی جماعتیں الیکشن کے ایک ہفتے بعد انتخابات کو مسترد کررہی ہیں۔ ہم متفقہ طور پر پارلیمنٹ کے اندر کٹھ پتلی حکومت کو شکست دیں گے۔ الیکشن میں باقاعدگیاں پاکستان کی بنیاد پر حملہ ہے‘‘۔

ایم ایم اے کے ایک اور رہنما مولانا غفور حیدری نے کہا کہ ’’جمعیت علمائے اسلام ف نے دھاندلی زدہ الیکشن کے بعد مؤقف رکھا کہ ہم حلف نہیں اٹھائیں گے اور اس پر اتفاق ایم ایم اے کی جماعتوں نے کیا۔ بعدازاں تجویز آئی تو پھر اس کو اے پی سی میں لے کر آئے۔ آج بھی حلف نہ اٹھانے کا معاملہ اے پی سی میں رکھا تمام جماعتوں کے اتفاق کی وجہ سے حلف اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے‘‘۔

اپوزیشن کی جانب سے تشکیل کردہ 16 رکنی ایکشن کمیٹی میں مشاہد حسین سید، سعد رفیق، احسن اقبال، شیری رحمان، قمر زمان کائرہ، غلام احمد بلور، میاں افتخار، غفور حیدری، اویس نورانی، لیاقت بلوچ، بیرسٹر مسرور اور عثمان کاکڑ، رضا محمد رضا، ملک ایوب، سینیٹر میر کبیر شامل ہیں۔

کمیٹی پارلیمنٹ کے اندر اور باہر احتجاج کی حکمت عملی طے کرے گی۔ اپوزیشن کی جانب سے کل جماعتی کانفرنس کا یہ دوسرا اجلاس تھا جس میں اہم فیصلے کیے گئے ہیں۔ سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ مشترکہ اپوزیشن تحریک انصاف کی متوقع حکومت کو ’’ٹف ٹائم‘‘ دے گی۔

XS
SM
MD
LG