رسائی کے لنکس

’امریکہ الزام تراشی ترک کرے‘


’امریکہ الزام تراشی ترک کرے‘
’امریکہ الزام تراشی ترک کرے‘

کل جماعتی کانفرنس میں فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی اور انٹیلی جنس ادارے آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل احمد شجاع پاشا بھی شرکت کر رہے ہیں جواجلاس کو قومی سلامتی کی صورت حال کے بارے میں بریفنگ دے رہے ہیں جب کہ وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے اپنے حالیہ دورہ امریکہ کے بارے میں شرکا کو آگاہ کیا ہے۔ توقع ہے اجلاس کے اختتام پر اس میں طے پانے والے معاملات سے میڈیا کو آگا ہ کیا جائے گا۔

عسکریت پسند گروہ حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کے حوالے سے امریکی دباؤ اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں شدت پسندوں کے مشتبہ ٹھکانوں پر یک طرفہ امریکی حملوں کے امکانات کا جائزہ لینے اور اس صورت حال میں قومی اتفاق رائے کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کا ایک اہم اجلاس جمعرات کو اسلام آباد میں ہو رہا ہے۔

کل جماعتی کانفرنس کے افتتاحی اجلاس سے خطاب میں وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ قومی سلامتی کا تحفظ حکومت کی اولین ترجیح ہے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان پر مزید اقدامات کرنے کے لیے دباؤ نہیں ڈالا جا سکتا تاہم اُنھوں نے کہا کہ مذاکرات کے دروازے کھلے ہیں۔

اُنھوں نے امریکہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ الزام تراشی کو ترک کر کے پاکستان کے حساس قومی مفادات کا احترام کرنے کے ساتھ ساتھ بامعنی مذاکرات کے ذریعے مفروضوں پر مبنی اختلافات کا حل تلاش کیا جائے۔ وزیراعظم گیلانی نے کہا کہ پاکستان اپنی بین الاقوامی ذمہ داریوں کو نبھاتے ہوئے علاقائی امن و استحکام اور سلامتی کے لیے جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہے۔

’’اعلیٰ امریکی حکام کی طرف سے دیئے جانے والے بیانات ہمارے لیے حیرانگی کا باعث بنے جو کہ پاکستان کی قربانیوں اور دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف کامیابیوں کے بالکل برعکس تھے۔ ان تمام الزامات کو مسترد کرتے ہوئے ہم نے مثبت اور ذمہ دارانہ طریقے سے مسائل کو حل کرنے کی اہمیت پر زور دیا۔ ہم نے بار ہا کہا کہ ان تمام مسائل کا حل صرف ہر سطح پر مثبت اور گہرے روابط کو فروغ دینے میں مضمر ہے۔‘‘

وزیراعظم گیلانی کی طرف سے بلائی گئی کل جماعتی کانفرنس میں سیاسی جماعتوں کے پچاس سے زائد رہنما شریک ہیں جن میں حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف، تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور جماعت اسلامی کے امیر منور حسن بھی شامل ہیں۔

کل جماعتی کانفرنس میں فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی اور انٹیلی جنس ادارے آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل احمد شجاع پاشا بھی شرکت کر رہے ہیں جواجلاس کو قومی سلامتی کی صورت حال کے بارے میں بریفنگ دے رہے ہیں جب کہ وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے اپنے حالیہ دورہ امریکہ کے بارے میں شرکا کو آگاہ کیا ہے۔ توقع ہے اجلاس کے اختتام پر اس میں طے پانے والے معاملات سے میڈیا کو آگا ہ کیا جائے گا۔

قومی پرست بلوچ رہنما اختر مینگل سمیت بعض دیگر بلوچ رہنما اس اجلاس میں شرکت نہیں کر رہے ہیں اور اُنھوں نے اس کی وجہ اپنے صوبے میں امن و امان کی خراب صورت پر مرکزی حکومت کی عدم توجہی بتائی ہے۔

فردوس عاشق اعوان
فردوس عاشق اعوان

کُل جماعتی کانفرنس میں شرکت سے قبل صحافیوں سے گفتگو میں وفاقی وزیر اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ ملک کو درپیش چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے قومی حکمت عملی پر اتفاق رائے وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ’’بحث و مباحثہ کے بعد ہم قومی مفاد میں ایک ایسی حکمت عملی پیش کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے جس کا مقصد صرف اور صرف سکیورٹی چلینجوں سے نمٹنا ہو۔‘‘

وزیر اعظم ہاؤس کے باہر صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے جمیعت علما اسلام کے رہنما مولانا فضل الرحمن نے ایک بار پھر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاک امریکہ تعاون پر تنقید کرتے ہوئے کہا ’’جب تک ہم امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات کو ایک نئی نہج نہیں دیں گے مجھے نہیں لگتا کہ کُل جماعتی کانفرنس کی کوئی افادیت ہوگی۔‘‘

پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کا کہنا تھا کہ کانفرنس میں اُن کی شرکت کا واحد مقصد حکمرانوں کو اس بات پر قائل کرنا ہے کہ انتہا پسندی اور دہشت گردی کا حل فوجی کارروائی نہیں ہے۔

’’امریکیوں کو یہ کہیں کہ ہم افغانستان میں ایک قومی مفاہمت کی حکومت بنانے میں ان کی مدد کر سکتے ہیں بجائے اس کے کہ اُن کے کہنے پر اور حملے کرتے جائیں۔ اس سے نا ہم کو فائدہ ہو گا نا اُن (امریکہ) کو۔‘‘

حسن عسکری رضوی
حسن عسکری رضوی

کل جماعتی کانفرنس کے ممکنہ نتائج کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے تجزیہ کار حسن عسکری رضوی کہتے ہیں ’’خارجہ پالیسی میں اس مرحلے پر کوئی بڑی تبدیلی ہو نہیں سکتی۔ اب سوچ یہ ہے کہ اگر امریکی سرکاری حلقے مہم چلا سکتے ہیں تو یہاں پاکستان کے سرکاری حلقے بھی مہم چلائیں گے۔‘‘

مبصرین کا کہنا ہے کہ امریکہ افواج کے اعلیٰ ترین افسر ایڈمرل مائک ملن سمیت دوسرے عہدے داروں کے پاکستان اور آئی ایس آئی مخالف بیانات سے دونوں ملکوں کے تعلقات کو دھچکا لگا ہے۔

گزشتہ ہفتے امریکی اراکین سینیٹ کے سامنے اپنے بیان میں امریکہ کے سبک دوش ہونے والے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف نے آئی ایس آئی پر براہ راست الزام لگایا کہ اس نے رواں ماہ کابل میں امریکی سفارت خانے پر حملہ کرنے میں شدت پسندوں کی مدد کی تھی اور دعویٰ کیا کہ حقانی نیٹ ورک آئی ایس آئی کا دست و بازو ہے جسے وہ افغانستان میں امریکہ کے خلاف بلواسطہ جنگ کے لیے استعمال کر رہا ہے۔

پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت نے ان الزامات کو بے بنیاد قرار دے کر مسترد کیا اور کہا کہ امریکہ افغانستان میں اپنی نا کامیوں کا ذمہ دار دوسروں کو ٹھہرانے کی کوشش کر رہا ہے۔

XS
SM
MD
LG