حکومت کے خلاف احتجاجی مظاہرے کی ایک اور کوشش نا کام ہو گئی۔ یہ مظاہرہ دارالحکومت کے وسط میں بڑے ڈاکخانے کے سامنے ہونا تھا۔ اس کا اعلان فیس بُک پر کیا گیا تھا اور خیال تھا کہ اس میں شرکت کے لیے ہزاروں نوجوان آئیں گے۔ لیکن صرف چند درجن لوگ آئے جنھیں پولیس کی بھاری تعداد نے آسانی سے منتشر کر دیا۔ 31 سالہ نالیہ ہمیش نے اپنی غصے اور مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’جب کبھی لوگوں نے احتجاج کے لیے جمع ہونے کی کوشش کی، پولیس نے انھیں منتشر کر دیا۔ لوگ سیاسی اظہارِ خیال کی آزادی چاہتے ہیں، اور اس میں پہلا حق احتجاج کرنے کا ہے۔‘‘
ہمسایہ ممالک، تیونس اور مصر میں، لوگوں کی بہت بڑی تعداد اپنے غصے کا اظہار کرنے نکل آئی اور دونوں ملکوں کے صدور کا تختہ الٹ گیا۔ بحرین، یمن، اردن، شام ، لیبیا اور ہمسایہ ملک مراقش میں بھی عوام کے احتجاج نے حکومتوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ بعض حکومتوں نے اصلاحات کا وعدہ کیا ہے اور بعض نے مظاہرین کو سختی سے کچل دیا ہے۔ یہاں الجزائر میں بھی لوگوں میں سخت ناراضگی ہے۔ آمرانہ حکومت کے خلاف، روزگار کے مواقع کے فقدان اور کرپشن کے خلاف۔ یہی جذبہ تیس سالہ طارق کو جو مارکیٹنگ میں کام کرتے ہیں، فیس بُک کے احتجاج میں شرکت کے لیے لے آیا۔ انھوں نے کہا کہ’’ احتجاج کرنے والے لوگ کرپشن، جبر و استبداد، اور حکومت کی طرف سے چوری کا خاتمہ چاہتےہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ الجزائر میں، جو تیل کی دولت سے مالا مال ہے، دولت کی تقسیم زیادہ منصفانہ ہو اور حکومت ملک کے نوجوانوں کے مطالبات پر کان دھرے۔‘‘
جنوری میں کھانے پینے کی چیزوں کی بڑھتی ہوئی قیمتوں پر ہونے والے فسادات میں یہاں پانچ افراد ہلاک اور تقریباً 800 زخمی ہوئے تھے۔ اس کے بعد سے اب تک ملک بھر میں ٹیچرز، طالب علم، بے روزگار لوگ اور جمہوریت کے حامی مختلف قسم کے مظاہرے کرتے رہے ہیں۔ لیکن ان مظاہروں نے کسی وسیع البنیاد تحریک کی شکل اختیار نہیں کی ہے۔ کئی گروپوں پر مشتمل ایک گروپ National Coordination for Change and Democracy کی طرف سے جو احتجاج ہوتے ہیں، ان میں بہت کم لوگ شرکت کرتے ہیں، بلکہ پولیس کی تعداد مظاہرین کی تعداد سے بہت زیادہ ہوتی ہے۔
حزبِ اختلاف کی پارٹی کے سربراہ، Said Saadi اس تحریک کا حصہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’سعدی کا خیال ہے کہ یہ بہت سے مختلف گروپ بالآخر ایک طاقتور تحریک کی شکل اختیار کر لیں گے جو یا تو حکومت کو پُر امن تبدیلی کے لیے مجبور کر دے گی یا پھر تشدد پھوٹ پڑے گا۔‘‘
لیکن یہاں بہت سے لوگ مزید تشدد سے گھبراتے ہیں۔ 1990ء کے عشرے کی یادیں ان کے ذہن سے محو نہیں ہوئی ہیں جب جمہوریت کے لیے تھوڑی سی اُمید پیدا ہوئی تھی اور پھر جلد ہی ملک میں خانہ جنگی شروع ہو گئی تھی۔ یہ وہ وقت تھا جب حکومت نے مجلس قانون ساز کے انتخابات منسوخ کر دیے تھے۔ ان انتخابات میں Islamic Salvation Front پارٹی جیتنے والی تھی۔ اس کے بعد کے سیاہ عشرے میں، ایک لاکھ سے زیادہ الجزائری ہلاک ہوئے، اور لاکھوں لا پتا ہو گئے۔
Ghania Lassal صحافی ہیں اور ملک کے غیر جانبدار اخبار، الوطن میں کام کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اگرچہ الجزائر کے لوگ تبدیلی اور جمہوریت چاہتے ہیں، وہ اس کے لیے اپنا وقت اور توانائی، اور ضروری ہو تو اپنا خون دینے کو تیار نہیں ہیں۔
الجزائر کے صدر عبدالعزیز Bouteflika نے اصلاحات کا وعدہ کیا ہے۔ فروری میں انھوں نے 19 سالہ ہنگامی حالت کے ختم ہونے کا اعلان کر دیا لیکن دارالحکومت میں مظاہروں پر پابندی برقرار ہے۔
ایک انٹرویو میں وزیرِ مواصلات Nacer Mahel نے کہا کہ حکومت نے ملک کے بنیادی ڈھانچے، رہائشی سہولتوں اور روزگار کے مواقع میں بہتری کے لیے کافی کام کیا ہے ۔ لیکن ابھی ہر شعبے میں بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ انھوں نے کہا کہ الجزائر کے نوجوانوں کے مطالبات پر توجہ دینا اہم ہے۔ لیکن انھوں نے یہ بھی کہا کہ الجزائر کے لوگوں کو توانا اور آزاد پریس سمیت بہت سی آزادیاں میسر ہیں۔ پھر بھی حکمراں طبقے میں پھوٹ کے آثار ظاہر ہونے لگے ہیں۔
الجزائر کی پارلیمینٹ کے ایوان بالا کے نائب صدر نے حکومت پر سخت تنقید کی ہے کہ وہ عام لوگوں کی زندگی کے حالات بہتر بنانے میں ناکام رہی ہے۔ اور الجزائر کی حکمراں FLN پارٹی کے سابق سربراہ، Abdelhamid Mehri نے کہا ہے کہ حکومت میں ملک کے بڑے مسائل سے نمٹنے کی صلاحیت نہیں ہے۔
صحافی Lassal کا خیال ہے کہ الجزائر کی حکومت خوفزدہ ہے۔ الجزائر مصر یا تیونس تو نہیں ہے، لیکن حکومت جانتی ہے کہ عوامی غم و غصہ ایک روز کسی بڑے انقلاب کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔