رسائی کے لنکس

کابل بم حملہ جنگی جرائم کے زمرے میں آتا ہے: ایمنسٹی انٹرنیشنل


بیان میں کہا گیا ہے کہ ’’اس خوفناک حملے میں شہری آبادی کو نشانہ بنایا گیا، جو بین الاقوامی قانون کے مطابق، جنگی جرائم کے زمرے میں آتا ہے۔ یہ کل ہی کی بات ہے کہ کابل میں لوگ شہر کی تاریخ کے مہلک ترین حملوں کی پہلی برسی منانے کی تیاری کر رہے تھے؛ جب کہ آج وہ مزید ہلاکتوں پر ماتم کناں ہیں‘‘

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے پیر کے روز مغربی کابل میں بارود بھری کار کے بس سے ٹکرانے کے نتیجے میں ہونے والے دھماکے پر دکھ کا اظہار کیا ہے، جس واقعے میں 24 افراد ہلاک جب کہ 42 زخمی ہوئے ہیں۔

ایک بیان میں، ایمنسٹی کی محقق حوریہ مصدق نے کہا ہے کہ ’’اس خوفناک حملے میں شہری آبادی کو نشانہ بنایا گیا، جو بین الاقوامی قانون کے مطابق، جنگی جرائم کے زمرے میں آتا ہے۔ یہ کل ہی کی بات ہے کہ کابل میں لوگ شہر کی تاریخ کے مہلک ترین حملوں کی پہلی برسی منانے کی تیاری کر رہے تھے؛ جب کہ آج وہ مزید ہلاکتوں پر ماتم کناں ہیں‘‘۔

اُنھوں نے کہا کہ ’’افغان تنازع شروع ہوئےتقریباً 16 برس ہوچکے ہیں، جس میں شہری آبادی کو سب سے زیادہ نقصان پہنچا ہے‘‘۔

حوریہ مصدق نے کہا ہے کہ ’’اس سال کے پہلے نصف کے دوران بہت زیادہ انسانی نقصان ہو چکا ہے، جن میں خواتین اور بچے بدترین متاثر ہوئے ہیں۔ اور، نہ تو افغان حکومت، نہ ہی بین الاقوامی برادری لوگوں کی حالتِ زار کی جانب ضروری دھیان دے پا رہی ہے‘‘۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ ’’افغان حکومت کو چاہیئے کہ لوگوں کو تحفظ کی فراہمی اپنی پالیسیوں کا محور بنائے۔ دریں اثنا، یورپی یونین کے ملک یہ سنگدلانہ دعوے بند کر دیں کہ افغانستان محفوظ ہے، جہاں مہاجرین اور پناہ کی حصول کے خواہشمند لوٹ سکتے ہیں‘‘۔

ادھر افغانستان میں اقوام متحدہ کے اعانتی مشن کے مطابق، اس سال یکم جون سے 30 جون کے دوران 1662 شہری ہلاک ہوئے، جو عالمی ادارے کی جانب سے ریکارڈ کردہ اعداد و شمار کے لحاظ سے کسی شش ماہی کے دوران شہری آبادی کی اب تک سب سے زیادہ تعداد ہے۔

اطلاعات کے مطابق، افغانستان کے دارالحکومت کابل میں سرکاری ملازمین کو لے جانے والی ایک بس پر خودکش حملے میں کم از کم 35 افراد ہلاک اور 40 سے زائد زخمی ہوگئے ہیں۔کابل پولیس کے ترجمان بصیر مجاہد کے مطابق واقعہ پیر کو علی الصباح کابل کے مغربی حصے میں پیش آیا جہاں کئی اہم سیاست دانوں اور سرکاری افسران کی رہائش گاہیں تھا۔

XS
SM
MD
LG