اقوامِ متحدہ کا کہنا ہے کہ جنگ سے تباہ حال ملک افغانستان کے لوگ بدستور مہلک تنازع سے متاثر ہو رہے ہیں اور یہ سال بھی ان کے لیے بدترین شہری ہلاکتوں کا سال ثابت ہوا ہے۔
افغانستان کے لیے اقوامِ متحدہ کے معاون مشن (یو این اے ایم اے) کی پیر کو جاری کردہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ رواں سال کے پہلے چھ ماہ کے دوران 1662 شہری ہلاک اور 3500 سے زائد زخمی ہوئے۔
ان میں دارالحکومت کابل میں پیش آنے والے مہلک واقعات میں ہونے والی شہری ہلاکتوں کا حصہ 20 فیصد ہے۔
رپورٹ کے مطابق زیادہ تر شہری حکومت مخالف گروپوں بشمول طالبان عسکریت پسندوں اور شدت پسند تنظیم داعش کی طرف سے کیے گئے حملوں سے متاثر ہوئے۔
اقوام متحدہ نے 2009ء سے افغانستان میں شہری ہلاکتوں کے اعدادوشمار جمع کرنے کا سلسلہ شروع کیا تھا۔
پہلی ششماہی میں ہونے والی ہلاکتوں میں اضافہ بہت منظم اور مربوط انداز میں کیے جانے والے حملوں کا نتیجہ ہے اور ایسے واقعات میں 259 افراد ہلاک اور 892 زخمی ہوئے جو گزشتہ سال کی نسبت اسی عرصے کے دوران ہونے والے شہری جانی نقصان سے 15 فیصد زیادہ ہیں۔
ان میں زیادہ تر ہلاکتیں مئی کے اواخر میں کابل میں ہونے والے ایک ہی دہشت گرد حملے میں ہوئیں جو کہ ایک ٹرک بم دھماکے کا نتیجہ تھیں۔
اقوامِ متحدہ نے اس واقعے میں ہلاکتوں کی تعداد 92 بتائی تھی جب کہ افغان حکومت کے بقول اس میں 150 سے زائد لوگ مارے گئے۔
یو این اے ایم اے اس واقعے کو 2001ء کے بعد کسی ایک ہی دن افغانستان میں ہونے والا سب سے مہلک حملہ قرار دیتا ہے۔
افغانستان کے لیے اقوام متحدہ کے نمائندہ خصوصی تادامیچی یاماموتو کہتے ہیں کہ تنازع کے باعث انسانی جانی نقصان کہیں زیادہ ہو رہا ہے اور ان کے بقول خاص طور پر دیسی ساختہ بموں کا غیر قانونی، بلا امتیاز اور نامناسب استعمال بند ہونا چاہیے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ مہلک واقعات میں خواتین اور بچوں کے مرنے اور زخمی ہونے کی تعداد بھی خاصی زیادہ رہی ہے جس کی وجہ مشن کے بقول دیسی ساختہ بموں کا استعمال اور گنجان آباد علاقوں میں کی جانے والی فضائی کارروائیاں ہیں۔
افغانستان میں رواں سال کے پہلے چھ ماہ کے دوران 174 خواتین ہلاک اور 462 زخمی ہوئیں جب کہ اس عرصے کے دوران 436 بچے ہلاک ہوئے۔
رپورٹ میں افغان سرکاری فورسز کو ان شہری ہلاکتوں کی دوسری بڑی وجہ قرار دیا گیا۔ تاہم مشن کا کہنا تھا کہ ایسی کارروائیوں میں شہری جانی نقصان میں گزشتہ سال کی نسبت 10 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔