آٹھ مارچ کو خواتین کے عالمی دن کی تیاریاں جاری ہیں۔ خواتین منتظمین پرامید ہیں کہ اس سال 'عورت مارچ' میں گزشتہ سال کی نسبت زیادہ خواتین شریک ہوں گی۔
لاہور کی مقامی انتظامیہ نے تاحال عورت مارچ کی باضابطہ اجازت نہیں دی۔ لیکن اس کے انعقاد کے لیے خواتین پرجوش دکھائی دیتی ہیں۔
عورت مارچ کے لیے سرگرم کارکن لینا غنی کہتی ہیں کہ اُنہوں نے آٹھ مارچ کی ریلی کے لیے درخواست دے رکھی ہے۔ لیکن ابھی تک اس پر کارروائی نہیں ہوئی۔
لینا غنی نے بتایا کہ عورت مارچ کے لیے وہ کسی سے کوئی مالی امداد نہیں لیتیں بلکہ تمام خواتین خود فنڈز اکٹھے کرتی ہیں۔
عورت مارچ کی منتظمین نے بتایا کہ اِس سال خواتین کے عالمی دن کے موقع پر اُن کا منشور 15 نکات پر مشتمل ہے۔ جس کے تحت ایک ایسے معاشرے کا مطالبہ کرنا ہے جس میں خواتین کو عزت دی جائے۔ اُن کا استحصال نہ کیا جائے۔
منشور کے مطابق 2020 کے عورت مارچ کے مقاصد میں خواتین کی معاشی خود مختاری، صحت، تعلیم اور نظام عدل میں اُنہیں بااختیار اور خود کفیل بنانا شامل ہے۔ منشور میں یہ بات بھی شامل ہے کہ خواتین کو اپنے جسم پر خود مختاری ہو۔
منشور میں کہا گیا ہے کہ خواتین کے خلاف گھریلو تشدد جیسے جرائم کو روکنے کے لیے اِسے پاکستان بھر میں غیرقانونی قرار دیا جائے۔ اور تعلیمی اداروں میں جنسی تشدد روکنے کے لیے خود مختار کمیٹیاں تشکیل دی جائیں۔
منشور میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ خواجہ سراؤں کے حقوق کے لیے موثر قانون سازی کی جائے۔ عورت مارچ منشور میں اِس بات پر بھی زور دیا گیا ہے کہ تعلیمی اداروں میں سیکیورٹی اور تحفظ کے نام پر طلبہ کی نگرانی اور ریاستی اداروں کی مداخلت ختم کی جائے۔
عورت مارچ میں شرکت کا ارادہ رکھنے والی ڈاکٹر ویرتا علی کہتی ہیں کہ عورت مارچ کی مخالف کرنے والے افراد کی اخلاقیات تب کہاں ہوتی ہے جب خواتین کا ریپ کیا جاتا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر ویرتا علی نے 'میرا جسم میری مرضی' کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اِس نعرے کا مطلب یہ ہے کہ عورت اپنی مرضی سے سانس لے۔ عورت اپنا تحفظ کر سکے، وہ اپنی زندگی کے فیصلے خود کر سکے۔
اُنہوں نے مزید کہا کہ اگر وہ باہر جانا چاہیں تو تحفظ کے ساتھ باہر جائیں، اگر وہ کام کرنا چاہیں تو تحفظ کے ساتھ کام کر سکیں، یہ ایک سادہ سی بات ہے۔
اُنہوں نے کہا کہ 'میرا جسم میری مرضی' کی مخالف کرنے والوں پر ہم غضہ کیوں نہ کریں۔ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں 96 فی صد خواتین جنسی ہراسانی کا سامنا کرتی ہیں۔ آئے روز پاکستانی خواتین کو ایسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
لاہور کی ضلعی انتظامیہ کے ایک عہدے دار نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ عورت مارچ کے منتظمین کے ساتھ ریلی کے روٹ اور سیکیورٹی معاملات پر بات چیت جاری ہے۔ اُنہوں نے بتایا کہ ایک 'کوڈ آف کنڈکٹ' ریلی کے منتظمین کے حوالے کیا گیا ہے۔ جس میں اُنہیں پابند کیا گیا ہے کہ کوئی نفرت انگیز مواد یا تقریر نہیں ہو گی۔
اُن کے بقول اگر وہ اِس سے اتفاق کرتی ہیں اور اپنے دستخط کر کے دے دیتی ہیں تو مارچ کی اجازت دی جا سکتی ہے۔ اعلٰی عہدے دار نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ عورت مارچ کا ممکنہ روٹ شملہ پہاڑی لاہور سے براستہ ایجرٹن روڈ الحمرا ہال ہو سکتا ہے۔
واضح رہے کہ لاہور ہائی کورٹ نے عورت مارچ کےخلاف دائر درخواست کو مسترد کر کے اجازت دیتے ہوئے کہا تھا کہ آئین کے تحت کسی بھی ریلی کو نہیں روکا جا سکتا۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ مارچ میں ایسے پلے کارڈز نہ ہو جس سے کسی کے جذبات مجروح ہو۔
یاد رہے گزشتہ سال خواتین کے عالمی دن کے موقع پر آٹھ مارچ کو لاہور سمیت پاکستان کے مختلف شہروں میں عورت مارچ کے نام سے ریلیاں نکالی گئیں تھیں۔ جس میں شریک خواتین کی جانب سے اٹھائے گئے پوسٹرز اور بینرز کو مختلف حلقوں کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔