پاکستان میں ملالہ یوسف زئی پر حملے کے بعدوزیرستان اور دیگر علاقوں میں موجود دہشت گردوں کے خلاف عسکری کارروائی کا مطالبہ زور پکڑتا جا رہا ہے۔ حکومتی اتحاد میں شامل عوامی نیشنل پارٹی و متحدہ قومی موومنٹ اورحکومت سے باہرکے مذہبی اتحاد خاص کر سنی اتحاد کونسل کھل کر دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کر رہی ہیں تاہم دیگر بڑی جماعتوں کی جانب سے صرف مذمت پر ہی اکتفا کیا جارہا ہے۔
حکمراں جماعت پاکستان پیپلزپارٹی کا دہشت گردی کے خلاف گرینڈ آپریشن پر محتاط رویہ سامنے آ رہا ہے۔ جمعہ کو وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک نے میڈیا کو بتایا کہ حکومت وزیرستان میں آپریشن پر غور توکر رہی ہے تاہم اس کا حتمی فیصلہ سیاسی و عسکری قیادت کرے گی۔
ادھرایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے ایک بیان میں شہریوں سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنے علاقوں کی تمام مساجد،امام بارگاہوں اور مدارس کے کوائف ایم کیو ایم کے تنظیمی دفاتر میں جمع کرائیں۔ جوآئمہ، خطیب، ذاکرین، علماء، مفتیان و دیگر افراد اپنے کوائف بتانے سے انکارکریں ان کے خانوں میں”بتانے سے انکار “ لکھ دیا جائے تاکہ ان کے نام حکومت کوارسال کئے جاسکیں ۔
اس بیان پر جمعیت علمائے اسلام ف کا سخت رد عمل سامنے آیا ہے۔ جمعہ کو کراچی میں میڈیا سے گفتگو میں جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے ایم کیو ایم کا نام لیے بغیر کہا کہ جو لوگ کہتے ہیں کہ علماء ملالہ پر حملے کی مذمت کریں وہ اس واقعے کو علماء کے خلاف استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مذمت پر زور دینے والے لوگ اپنے آپ کو قابو میں رکھیں۔ مولانا کا کہنا تھا کہ مساجد پر بمباری کی بھی مذمت کی جانی چاہیے۔
دوسری جانب وزیر خارجہ حنا ربانی کھر کا کہنا ہے کہ ملالہ یوسف زئی پر حملہ پاکستان کے لیے ”ویک اپ کال“ ہے۔جو اس جانب نشاندہی کرتا ہے کہ ابھی ”خطرہ“ موجود ہے۔
امریکی ٹی وی سی این این کو انٹرویو میں حنا ربانی کھر کا کہنا تھا کہ تشدد کا راستہ اپنانے والے ملک او قوم کے لئے خطرہ ہیں۔ ملالہ کو نشانہ بنا کر انہوں نے بتا دیا ہے کہ وہ کس حد تک جا سکتے ہیں۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ ملالہ یوسف زئی کے واقعے نے وہ کردیا ہے جو کئی فوجی آپریشن نہیں کرسکے۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ سوات سے نکالے جانے کے بعد شرپسندوں نے افغانستان میں کنڑ اور نورستان کے علاقوں میں پناہ لے لی ہے۔
حکمراں جماعت پاکستان پیپلزپارٹی کا دہشت گردی کے خلاف گرینڈ آپریشن پر محتاط رویہ سامنے آ رہا ہے۔ جمعہ کو وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک نے میڈیا کو بتایا کہ حکومت وزیرستان میں آپریشن پر غور توکر رہی ہے تاہم اس کا حتمی فیصلہ سیاسی و عسکری قیادت کرے گی۔
ادھرایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے ایک بیان میں شہریوں سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنے علاقوں کی تمام مساجد،امام بارگاہوں اور مدارس کے کوائف ایم کیو ایم کے تنظیمی دفاتر میں جمع کرائیں۔ جوآئمہ، خطیب، ذاکرین، علماء، مفتیان و دیگر افراد اپنے کوائف بتانے سے انکارکریں ان کے خانوں میں”بتانے سے انکار “ لکھ دیا جائے تاکہ ان کے نام حکومت کوارسال کئے جاسکیں ۔
اس بیان پر جمعیت علمائے اسلام ف کا سخت رد عمل سامنے آیا ہے۔ جمعہ کو کراچی میں میڈیا سے گفتگو میں جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے ایم کیو ایم کا نام لیے بغیر کہا کہ جو لوگ کہتے ہیں کہ علماء ملالہ پر حملے کی مذمت کریں وہ اس واقعے کو علماء کے خلاف استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مذمت پر زور دینے والے لوگ اپنے آپ کو قابو میں رکھیں۔ مولانا کا کہنا تھا کہ مساجد پر بمباری کی بھی مذمت کی جانی چاہیے۔
دوسری جانب وزیر خارجہ حنا ربانی کھر کا کہنا ہے کہ ملالہ یوسف زئی پر حملہ پاکستان کے لیے ”ویک اپ کال“ ہے۔جو اس جانب نشاندہی کرتا ہے کہ ابھی ”خطرہ“ موجود ہے۔
امریکی ٹی وی سی این این کو انٹرویو میں حنا ربانی کھر کا کہنا تھا کہ تشدد کا راستہ اپنانے والے ملک او قوم کے لئے خطرہ ہیں۔ ملالہ کو نشانہ بنا کر انہوں نے بتا دیا ہے کہ وہ کس حد تک جا سکتے ہیں۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ ملالہ یوسف زئی کے واقعے نے وہ کردیا ہے جو کئی فوجی آپریشن نہیں کرسکے۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ سوات سے نکالے جانے کے بعد شرپسندوں نے افغانستان میں کنڑ اور نورستان کے علاقوں میں پناہ لے لی ہے۔