آئندہ دِنوں، افغانستان میں پولیو کے قطرے پلانے کی مہم کو دوبارہ شروع کیا جائے گا۔ صوبائی حکام نے بتایا ہے کہ یہ مہم دور افتادہ مشرقی علاقوں کے ہزاروں بچوں کے لیے ہوگی جو داعش کے زیر تسلط رہا ہے۔
پولیو کے ٹیکوں کی مہم پچھلے 18 ماہ سے زیادہ مدت سے تعطل کا شکار رہی ہے چونکہ صحت عامہ کے کارکنان سفر کے دوران محفوظ نہیں تھے۔ یہ کشیدہ تین اضلاع صوبہٴ ننگرہار میں واقع ہیں جن کی سرحدیں پاکستان سے ملتی ہیں۔ مجموعی طور پر، یہ نئی مہم ملک کے 14 صوبوں کے 137 اضلاع میں چلائی جائے گی جہاں پولیو وائرس متحرک ہے۔
داعش پولیو ’ویکسی نیشن‘ مہم یہ کہتے ہوئے روکتی رہی ہے کہ افغان حکومت اور مغرب صحت کے کارکنان کو انٹیلی جنس اکٹھے کرنے کے مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ دولت اسلامیہ نے پولیو کے بارے میں کی جانے والی کوششوں کے سلسلے میں غلط اطلاعات پھیلا رہی ہے؛ یہ کہتے ہوئے کہ طویل مدت کے دوران یہ قطرے لڑکوں اور بچیوں میں تولیدی عمل متاثر ہوتا ہے، اور یہ کہ اس میں سوئر کی مصنوعات شامل ہوتی ہیں، جو اسلامی قانون میں غیر قانونی ہے۔
عالمی ادارہٴ صحت کے مطابق، افغانستان اور ہمسایہ پاکستان کے علاقوں سے مخصوص مرض ہے۔ نائجیریا کے علاوہ یہ دو ملک ہیں جہاں یہ وائرس متحرک ہے۔
گھمسان کی لڑائی کے بعد افغان اور امریکی افواج کی جانب سےمشرقی صوبہ ٴ ننگرہار میں کی گئی حالیہ کارروائیوں کے نتیجے میں متعدد علاقوں سے داعش کے شدت پسندوں کا صفایا کیا گیا ہے۔
اچین، کوٹ اور ہسکہ مینا کے اضلاع میں ہزاروں بچوں کو پولیو کے قطرے میسر آئیں گے۔
علی گل، ننگرہار کی پولیو مہم کے منتظم ہیں۔ اُنھوں نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ ’’پچھلی مہموں کے دوران 18000 بچوں کو پولیو کے قطرے نہیں پلائے جاسکے۔ ہمیں امید ہے کہ (داعش کے خلاف) حالیہ فوجی کارروائیوں کے نتیجے میں، بغیر پولیو قطروں کے کوئی بچہ باقی نہیں رہے گا‘‘۔