افغانستان کے دارالحکومت کابل میں بدھ کو ہزاروں افراد نے مشتبہ طور پر داعش سے منسلک عسکریت پسندوں کے ہاتھوں سات شہریوں کے قتل کے خلاف مظاہرہ کیا۔
قتل کیے گئے افراد کا تعلق شیعہ ہزارہ برادری سے تھا اور انھیں ایک ماہ سے زائد عرصہ قبل اغوا کیا گیا تھا۔ اتوار کو حکام کو جنوبی صوبہ زابل سے ان افراد کی سربریدہ لاشیں ملی تھیں جن میں تین خواتین بھی شامل ہیں۔
مظاہرین نے تابوت اٹھا رکھے تھے اور شدید سرد موسم اور بارش کے باوجود کابل کی سڑکوں پر مارچ کرتے ہوئے وہ صدارتی محل کے سامنے پہنچے۔
مظاہرین "طالبان مردہ باد" اور "داعش مردہ باد" کے نعرے لگا رہے تھے اور انھوں نے مرنے والوں کے اغوا کے بعد غفلت برتنے کا الزام عائد کرتے ہوئے صدر اشرف غنی اور چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ سے مستعفی ہونے کا مطالبہ بھی کیا۔
جب مظاہرین میں شامل بعض افراد نے صدارتی محل کے دروازے پر دھاوا بولنے کی کوشش کی تو وہاں موجود سکیورٹی فورسز نے مظاہرین کو منشتر کرنے کے لیے انتباہی فائرنگ کی۔
مظاہرے میں خواتین ایک بڑی تعداد بھی شریک ہوئے اور انھوں نے اپنے مطالبات کی منظوری تک منتشر نہ ہونے کا عزم کیا۔
افغانستان کے بعض دیگر علاقوں سے بھی اس واقعے کے خلاف مظاہروں کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔
افغانستان کے لیے اقوام متحدہ کے مشن نے بھی سات افراد کے قتل کے اس واقعے کی مذمت کی ہے۔
بدھ کو مشن کے سربراہ نکولس ہیسوم نے ایک بیان میں کہا کہ یرغمال بنائے گئے شہریوں بشمول خواتین اور بچوں کا دانستہ قتل نفرت انگیز ہے۔
شدت پسند گروپ داعش نے گزشتہ سال شام اور عراق کے ایک وسیع رقبے پر قبضہ کر کے وہاں خلافت کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اپنا دائرہ اثر افغانستان تک بڑھائے گا۔
صدر اشرف غنی نے بھی پیر کو اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اس ظالمانہ فعل کو افغانستان کے عوام دشمنوں کی مایوسی اور شکست کی علامت سمجھتے ہیں۔
حال ہی میں افغان فورسز نے ملک میں موجود امریکی افواج کی مدد سے صوبہ ننگر ہار میں ’داعش‘ کے ٹھکانوں کے خلاف کارروائی کی تھی۔