افغان خواتین کے ایک چھوٹے گروپ نے جمعہ کو کابل میں صدارتی محل کے قریب احتجاج کیا، انہوں نے طالبان سے ایک ایسے موقع پر مساوی حقوق کا مطالبہ کیا جب افغانستان کے نئے حکمران حکومت سازی اور بین الاقوامی سطح پر تسلیم کیے جانے کے لیے کام کر رہے ہیں۔
کابل میں یہ احتجاج کئی دنوں میں خواتین کا دوسرا احتجاج تھا، اس سے قبل ایک احتجاج مغربی شہر ہرات میں ہوا تھا۔ تقریباً 20 خواتین مائیکروفون کے ساتھ مسلح طالبان کے سامنے جمع ہوئیں، جنہوں نے مظاہرے کو آگے بڑھنے دیا۔
خواتین نے تعلیم تک رسائی، کام پر واپس آنے کے حق اور ملک کی حکمرانی میں کردار کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے جو کارڈ اٹھا رکھے تھے ان میں سے ایک پر لکھا تھا "آزادی ہمارا نصب العین ہے۔ ہمیں اس پر فخر ہے"۔
ایک موقع پر ایک جنگجو طالب ہجوم میں گھس گیا، لیکن عینی شاہدین نے بتایا کہ وہ ان لوگوں پر برہم تھا جو مظاہرے کو دیکھنے کے لیے رک گئے تھے نہ کہ مظاہرین پر۔
طالبان نے کہا ہے کہ خواتین اپنی تعلیم جاری رکھ سکیں گی اور گھر سے باہر کام کر سکیں گی، جب عسکریت پسند آخری بار اقتدار میں تھے تو خواتین کو حقوق سے محروم کر دیا گیا تھا۔ لیکن طالبان نے یہ عزم بھی ظاہر کیا ہے کہ وہ شریعت، یا اسلامی قانون نافذ کریں گے، لیکن تفصیلات نہیں دیں۔
طالبان کے لیے ممکنہ طور پر بحران میں گھری ہوئی معیشت زیادہ پریشانی کا باعث ہے، جو بحران میں مبتلا ہے۔ سرکاری ملازمین کو کئی مہینوں سے ادائیگی نہیں کی گئی، اے ٹی ایم مشینوں کو بند کر دیا گیا ہے اور بینک ہفتے میں 200 ڈالر تک رقم نکالنے کی پابندی لگا رہے ہیں، جس کی وجہ سے بینکوں کے باہر بڑے ہجوم بن گئے ہیں۔ ملک میں شدید خشک سالی ہے اور امدادی گروپوں نے بڑے پیمانے پر بھوک کے خطرے سے خبردار کیا ہے۔
طالبان نے کہا ہے کہ ویسٹرن یونین سے رقوم کی منتقلی دوبارہ شروع ہو جائے گی، جس نے عسکریت پسندوں کے گزشتہ ماہ کابل میں داخل ہونے کے بعد اپنی سروس بند کر دی تھی۔ اس سے افغان شہریوں کو بیرون ملک مقیم اپنے رشتہ داروں سے نقد رقوم وصول کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ لیکن افغانستان کے بیشتر غیر ملکی ذخائر بیرون ملک موجود ہیں اور منجمد ہیں جب کہ مغربی ممالک یہ غور کر رہے ہیں کہ طالبان کے ساتھ کس طرح کے روابط رکھے جائیں، جس سے مقامی کرنسی پر دباؤ میں اضافہ ہو رہا ہے۔
ویسٹرن یونین کی جانب سے سروس کی بحالی کے متعلق فوری طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔
طالبان کا کہنا ہے کہ وہ تمام ممالک حتیٰ کہ امریکہ کے ساتھ بھی اچھے تعلقات چاہتے ہیں اور انہوں نے خلیجی ملک قطر میں حالیہ دنوں میں غیر ملکی ایلچیوں کے ساتھ کئی ملاقاتیں کیں، جہاں انہوں نے طویل عرصے سے اپنا سیاسی دفتر قائم کررکھا ہے۔
طالبان کے ثقافتی کمشن کے ترجمان احمد اللہ متقی نے بتایا کہ متحدہ عرب امارات کے ایک سینئر عہدیدار، جس کا نام نہیں بتایا گیا، طالبان حکام سے ملاقات کے لیے جمعہ کے روز پرواز سے کابل کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر پہنچے۔ افغانستان کے طلوع ٹی وی نے رپورٹ کیا کہ طیارے میں 60 ٹن خوراک اور طبی امداد بھی تھی۔
قطر میں مقیم ایک سینئر طالبان عہدیدار شیر محمد ستانکزئی نے حال ہی میں برطانوی اور جرمن وفود سے ملاقات کی۔ ان کے مطابق ایک اور عہدے دار عبدالسلام حنفی نے چین کے نائب وزیر خارجہ وو جیانگ ہاؤ سے ٹیلی فون پر بات کی۔
15 اگست کو طالبان کے کابل میں داخل ہونے کے بعد بیشتر مغربی سفارت خانے خالی اور بند کر دیے گئے تھے۔ طالبان نے سفارتکاروں کی واپسی پر زور دیا ہے۔
پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز کے حکام نے افغانستان کی آزاد سول ایوی ایشن انتظامیہ سے ملاقات کی ہے۔ لیکن ایئرلائن کے ترجمان عبداللہ حفیظ نے کہا کہ ایئرپورٹ سے ملبے کو صاف کرنے اور معمول کا کام بحال کرنے میں "کچھ وقت" لگے گا۔
انہوں نے کہا، "بین الاقوامی پروازوں کے ہوائی اڈے پر آنے سے پہلے ابھی بہت کام کرنا باقی ہے۔"
(اس خبر کی کچھ معلومات ایسوسی ایٹڈ پریس سے لی گئی ہے)