حزب اختلاف کے رہنما، سعید ظاہر ایڈوکیٹ نے پشاور کی ضلعی کونسل کے باضابطہ اجلاس کی کارروائی کے دوران انکشاف کیا ہے کہ سبزی منڈی میں تاجروں اور ٹرانسپورٹروں سے افغان طالبان زبردستی بھتہ وصول کرتے ہیں۔
اس سلسلے میں، سعید ظاہر نے افغان طالبان کے ہاتھوں رقم کی وصولی کی رسیدیں بھی کنوینر اور ذرائع ابلاغ کے نمائندوں میں تقسیم کیں۔
ضلعی اسمبلی میں پیش کی جانے والی یہ مبینہ رسیدیں ڈرائیوروں اور تاجروں کو امارات اسلامی کی جانب سے فراہم کی گئی ہیں۔
بعدازاں، ’وائس آف امریکہ‘ سے بات کرتے ہوئے، سعید ظاہر ایڈوکیٹ نے بتایا کہ ان کو مقامی تاجروں، ڈرائیوروں اور ٹرانسپورٹروں کی جانب سے یہ رسیدیں مہیہ کی گئی ہیں۔ بقول اُن کے، ’’ہر ایک شخص سے افغان طالبان 5ہزار روپے وصول کرکے رسید دیتے ہیں‘‘۔
سعید ظاہر نے الزام لگایا کہ ’’اس قسم کی وصولیوں کے باعث دونوں ملکوں کے درمیان دوطرفہ تجارت پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں‘‘۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان دوطرفہ تجارت سے وابستہ ایک ٹرانسپورٹر نے نام نہ بتانے کی شرط پر اس بات کی تصدیق کی ہے۔ اُنھوں نے کہا ہےکہ سرحد پار افغانستان میں بعض افراد طالبان کے نام پر ڈرائیوروں اور تاجروں سے بھی ناجائز اور خود ساختہ ٹیکس وصول کرتے ہیں۔ بقول اُن کے، افغان حکام بھی ان افراد کو جانتے ہیں۔ تاہم، ان کے خلاف کسی قسم کی کارروائی نہیں کی جاتی۔
پاکستان اور افغانستان کی دوطرفہ تجارت کے کمیشن ایجنٹوں کی تنظیم کے عہدیدار نے بھی اس خود ساختہ ٹیکس کی وصولی کی تصدیق کی ہے۔ سرکاری سڑکوں اور راستوں کے علاوہ غیرقانونی راستوں کے ذریعے ہونی والی سمگلنگ اور تجارت سے دونوں ملکوں کے سرکاری اداروں کے اہلکاروں کے علاوہ انتہاپسندی اور دہشت گردی میں ملوث عناصر بھی ٹیکس کے نام پر بھتہ خوری پچھلی کئی دہائیوں سے کر رہے ہیں۔
تاجروں سے بھتہ خوری وصول کرنے کے الزام پر ابھی تک سرکاری طور پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔
افغانستان اور پاکستان کے درمیان دوطرفہ تجارت کی کہانی بہت پرانی ہے؛ جب کہ دونوں ممالک کے درمیان خراب تعلقات کے تجارت پر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
دسمبر 1979ء میں جب سابق سوویت یونین نے افغانستان کے خلاف جارجیت کی اور لگ بھگ ایک لاکھ فوج کو افغانستان کے کونے کونے میں تعینات کیا، تو افغانستان میں جنگ کے خاتمے تک دونوں پاکستان اور افغانستان کے درمیان دوطرفہ تجارت کا سلسلہ جاری رہا۔ اِسی طرح، 1992ء سے طالبان حکومت کے خاتمے تک بھی یہ سلسلہ جاری تھا۔ 2001ء میں طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان دوطرفہ تجارت کو کافی فروغ ملا، مگر 2005ء میں اسلام آباد اور کابل کے تعلقات میں سرد مہری کے بعد، دوطرفہ تجارت میں کمی دیکھنے میں آ رہی ہے۔
ایک وقت تھا جب دوطرفہ تجارت کا حجم لگ بھگ پانچ ارب ڈالر سالانہ تک پہنچ چکا تھا۔ مگر حکام اور تاجروں کے مطابق، اس وقت دوطرفہ تجارت کا حجم ایک ارب سالانہ سے بھی کم ہے۔
دوطرفہ تجارت کے حجم میں کمی کے اسباب میں دونوں ملکوں کے درمیان خراب تعلقات اور عائد کردہ محصول میں اضافے کے علاوہ سرکاری اہلکاروں اور دیگر لوگوں کے ہاتھوں وصول کی جانے والی خودساختہ ٹیکس اور رشوت سر فہرست ہے۔
باضابطہ تجارت کے علاوہ، دونوں ممالک کے درمیان غیرقانونی راستوں اور گزرگاہوں کے ذریعے غیرقانونی تجارت اور سمگلنگ کا سلسلہ ہر وقت اور ہر دور میں جاری رہتا ہے۔ یہ غیر قانونی تجارت بھی نہ صرف دہشت گردی اور انتہاپسندی میں ملوث عناصر اور گروپوں کی کمائی کا اہم ذریعہ ہے، بلکہ اس سے دونوں ملکوں کے سرکاری حکام اور اہلکاروں کو بھی کافی ادائیگیاں کی جار ہی ہے۔
پچھلے کئی برسوں سے، پاکستان اور افغانستان کے درمیان دوطرفہ تجارت نہ صرف سرد مہری کا شکار ہے، بلکہ دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان خراب تعلقات کے باعث تاجروں اور ٹرانسپورٹروں سے غیر قانونی اور خودساختہ ٹیکس کی وصولی میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔