رسائی کے لنکس

افغان طالبہ نے بھارت میں طلائی تمغہ جیتا اور تعلیم سے محروم ہم وطن لڑکیوں کے نام کر دیا


بھارت کی ویر نارمد ساؤتھ گجرات یونیورسٹی میں رضیہ مرادی کو نمایاں کارکردگی پر طلائی تمغہ دیا گیا۔
بھارت کی ویر نارمد ساؤتھ گجرات یونیورسٹی میں رضیہ مرادی کو نمایاں کارکردگی پر طلائی تمغہ دیا گیا۔

بھارت کے ایک کالج سے افغانستان سے تعلق رکھنے والی طالبہ رضیہ مرادی نے ماسٹرز ڈگری میں شاندار کارکردگی پر ملنے والا طلائی تمغہ اپنے آبائی ملک کی ان طالبات کے نام کر دیا ہے جنہیں طالبان کی جانب سے یونیورسٹیوں میں پڑھنے کی اجازت نہیں ہے۔

رضیہ مرادی کا وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہنا تھا کہ جب انہیں یہ تمغہ ملا تو وہ فوری طور پر اپنے آبائی وطن سے متعلق خیالات میں گم ہو گئیں۔

افغانستان کے صوبے بامیان میں پرورش پانے والی رضیہ مرادی کو اپنا مستقبل روشن دکھائی دے رہا تھا۔ وہ دن میں کام کرتی تھیں جب کہ اپنے گریجویشن مکمل کرنے کے لیے شام میں کالج جایا کرتی تھیں۔

رضیہ مرادی کے بقول ان کی زندگی پر امن اور نارمل تھی۔ خواتین آزادی کے ساتھ یونیورسٹی جایا کرتی تھیں۔ خاندان والے بیٹیوں کی حوصلہ افزائی اور مدد کیا کرتے تھے اور وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہی تھیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ایک سال قبل وہ پبلک ایڈمنسٹریشن کے مضمون میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے اسکالرشپ پر بھارت آئیں۔ وہ ان ہزاروں افغان طلبہ میں سے ایک ہیں جو دو دہائیوں سے بھارت کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔

رضیہ مرادی بھی دیگر نوجوان طلبہ کی طرح تعلیم کے حصول کے بعد ملک واپس جانا چاہتی تھیں اور اپنی ڈگری کو پالیسی سازی کے لیے روزگار میں استعمال میں لا کر افغانستان کو جدید بنانے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہتی تھیں۔

تاہم جب اگست 2021 میں طالبان نے افغانستان کا کنٹرول سنبھالا تو اچانک سب کچھ تبدیل ہوگیا۔ متعدد دیگر خواتین کی طرح ان پر اس بات کا خوف طاری ہوا کہ ملک اندھیرے میں ڈوب جائے گا جس کی گواہی عمر رسیدہ افراد دیتے ہیں۔

یہی وجہ تھی کہ تمغہ ملتے وقت انہیں خوشی اور فخر تو تھا لیکن رضیہ مرادی اس وقت افسردہ بھی تھیں جب انہیں ریاست گجرات کے مغربی حصے میں قائم ویر نارمد ساؤتھ گجرات یونیورسٹی میں تمغہ دیا گیا۔

رضیہ مرادی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ انہوں نے اس کامیابی کو ان تمام افغان خواتین کے لیے منسوب کیا ہے جن کے پاس تعلیم کا وہ موقع موجود نہیں جو انہیں حاصل ہے۔

انہوں نے کہا کہ وقت آئے گا جب ان جیسی لڑکیاں ایک دوسرے کی تقویت کا باعث بنیں گی۔ یہ تمغہ اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ خواتین ہر کام سرانجام دے سکتی ہیں۔

رضیہ مرادی کا کہنا کہ وہ اپنے آپ کو افغانستان کی تعلیم سے محروم خواتین کی نمائندے کے طور پر دیکھتی ہیں۔

خیال رہے کہ طالبان خواتین کے یونیورسٹیوں میں تعلیم کے حصول پر پابندی عائد کر چکے ہیں جس کے باعث خواتین کی تعلیم کو سخت دھچکا لگا ہے۔

اس سے قبل طالبان نے لڑکیوں کو ثانوی اسکول جانے سے روک دیا تھا، جس کے نتیجے میں لاکھوں لڑکیوں کو چھٹی جماعت سے آگے تعلیم حاصل کرنے سے محروم کر دیا گیا ہے۔

لگ بھگ ڈیڑھ سال قبل جب طالبان حکومت میں آئے خواتین کو کام کرنے سے روک دیا گیا تھا۔ ان کے لیے برقعہ پہننا لازم قرار دیا گیا تھا جب کہ خاندان کا کوئی فرد ساتھ نہ ہونے کی صورت میں وہ سفر نہیں کر سکتیں۔ نہ ہی وہ پارکس جا سکتی ہیں۔

رضیہ مرادی جیسی افغان خاواتین کی امیدیں دم توڑ چکی ہیں کہ طالبان کبھی معتدل حکمرانی پر گامزن ہوں گے جس کا ابتدائی طور پر انہوں نے وعدہ کیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ وہ اندر سے ٹوٹ پھوٹ چکی ہوں جو کچھ نوے کی دہائی میں ہوا تھا، اسے دہرایا جا رہا ہے وہ جس امید کے ساتھ بھارت آئی تھی وہ سب دم توڑ چکی ہیں۔

ایسے میں جب ان کا ملک انتشار کا شکار تھا ان کے لیے ماسٹرز کی تعلیم جاری رکھنا آسان کام نہیں تھا۔

افغان لڑکیوں کی تعلیم کے لئے سرگرم پشتانہ درانی
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:45 0:00

انہیں اپنے خاندان کے بارے میں پریشانی لاحق ہے البتہ انہوں نے کہا کہ انہوں نے خاموشی سے اپنا کام جاری رکھا چوں کہ انہیں بس اس بات کا اطمینان تھا کہ وہ ان خوش نصیب افغان خواتین میں سے ایک ہیں جو ابھی تک تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔

رضیہ مرادی اسی تعلیمی ادارے سے پبلک ایڈمنسٹریشن میں پی ایچ ڈی کر رہی ہیں جس کے لیے بھارتی حکومت کی ثقافتی امور کی کونسل نے اسکالرشپ دی ہے۔

ان کے بقول طالبان کو خواتین کو تعلیم سے محروم کرنے کے معاملے پر نظرِ ثانی کرنی چاہیے۔ اگر وہ حکمرانی کرنا چاہتے ہیں تو وہ خواتین کو نظرِ انداز نہیں کر سکتے۔ خواتین احتجاج کریں گی۔ وقت آئے گا جب وہ اپنے حقوق کے بارے میں سوال کریں گی۔ بصورت دیگر ملک کی نصف آبادی کسی کام کی نہیں رہے گی۔

(وی او اے نیوز)

XS
SM
MD
LG