رسائی کے لنکس

اتحادی افواج کی بمباری میں آٹھ افغان فوجی ہلاک


افغان حکام کے مطابق بین الاقوامی اتحادی افواج کی طرف سے غلطی سے افغان نیشنل آرمی کی ایک چوکی کو نشانہ بنایا گیا، اُن کے بقول مشتبہ ہدف چوکی سے تقریباً ایک کلو میٹر کے فاصلے پر تھا۔

افغانستان میں پولیس کے مطابق ملک کے جنوب مشرقی صوبے میں امریکی ہیلی کاپٹروں سے کی گئی بمباری میں آٹھ افغان فوجی ہلاک جب کہ متعدد زخمی ہو گئے۔

یہ واقعہ دارالحکومت کابل سے 50 کلومیڑ مشرق میں صوبہ لوگر کے ضلع باراکئی بارک پیش آیا۔

صوبائی پولیس کے سربراہ محمد داؤد احمدی نے مقامی ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ ملک میں موجود بین الاقوامی اتحادی افواج کی طرف سے غلطی سے افغان نیشنل آرمی کی ایک چوکی کو نشانہ بنایا گیا۔ اُن کے بقول مشتبہ ہدف چوکی سے تقریباً ایک کلو میٹر کے فاصلے پر تھا۔

امریکی عہدیداروں کے مطابق وہ اس واقعہ سے آگاہ ہیں اور اس کی تفتیش کی جا رہی ہے۔ لیکن اس فضائی کارروائی میں ہونے والے نقصان سے متعلق کچھ نہیں بتایا گیا۔

یہ فضائی کارروائی ایسے وقت ہوئی جب امریکہ کے چیئرمین آف جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل مارٹن ڈیمسی نے ایک روز قبل ہی افغانستان اور دورہ کیا اور افغان صدر اشرف غنی سے ملاقات کی۔

ضلع باراکئی بارک کے گورنر محمد رحیم امین نے کہا ہے کہ نیٹو کی طرف یہ فضائی کارروائی بظاہر غلطی کی وجہ سے کی گئی کیوں کہ علاقے میں طالبان کی سرگرمیوں کے باعث رابطہ کاری اور تعاون کی صورت حال بہت خراب ہے۔

بعد ازاں افغان وزارت دفاع کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ امریکہ کی زیر قیادت اتحادی افواج کے ہیلی کاپٹروں پر علاقے میں ’دشمن‘ کی طرف حملہ کیا گیا جس کے جواب میں کارروائی گئی اور غلطی سے افغان فوجیوں کی چوکی اُس کا نشانہ بنی۔

افغانستان میں اس وقت بین الاقوامی اتحادی افواج کے لگ بھگ 12 ہزار اہلکار تعینات ہیں جن میں سے اکثریت امریکی فوجیوں کی ہے۔ اتحادی افواج کے زیادہ تر اہلکار افغان فورسز کی تربیت میں مصروف ہیں۔

فضائی کارروائیوں میں افغان شہریوں کی ہلاکتیں افغانستان حکومت اور بین الاقوامی اتحادی افواج کے درمیان متنازع معاملہ رہا ہے۔

حالیہ واقعہ ایسے وقت پیش آیا جب مبصرین کے مطابق عیدالفطر کے موقع پر گزشتہ تین روز کے دوران طالبان کی طرف سے خلاف معمول طور پر حملوں میں وقفہ آیا ہے۔

اس کی وجہ بظاہر طالبان اور افغان حکومت کے درمیان ہونے والے مذاکرات ہیں۔

گزشتہ ہفتے ہی افغان طالبان کے رہنما ملا محمد عمر نے ایک بیان میں حکومت کے ساتھ امن مذاکرات کی حمایت کی تھی۔

رواں ماہ پاکستان کی میزبانی میں اسلام آباد کے قریب سیاحتی مقام مری میں پہلی مرتبہ افغان طالبان کے نمائندوں اور افغانستان کی حکومت کے عہدیداروں کے درمیان براہ راست ملاقات ہوئی تھی۔

اس ملاقات میں امریکہ اور چین کے نمائندے بھی شریک تھے۔ مری میں ہونے والے مذاکرات کے بعد پاکستانی وزارت خارجہ سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق فریقین نے دوبارہ ملاقات پر اتفاق کیا تھا۔

XS
SM
MD
LG