مہاجرین اور بچوں سے متعلق اقوام متحدہ کے دو ذیلی اداروں نے ایک مشترکہ منصوبے کا آغاز کیا ہے، جس کے تحت موبائل فون کو استعمال میں لاتے ہوئے ’ایس ایم ایس‘ کے ذریعے نوجوان افغان پناہ گزین مختلف معاملات کے بارے میں رائے کا اظہار کر سکیں گے۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین ’یو این ایچ سی آر‘ اور اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال ’یونیسف‘ نے اس بارے میں مفاہمت کی ایک یاداشت پر دستخط کیے ہیں۔
’یو این ایچ سی آر‘ کی پاکستان میں ایک ترجمان دنیا اسلم خان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اس منصوبے کا مقصد جدید ٹیکنالوجی کو استعمال میں لاتے ہوئے رابطوں کو بڑھانا ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ منصوبے کے تحت موبائل فون کو استعمال کرتے ہوئے مختصر تحریری پیغامات یعنی ’ایس ایم ایس‘ کے ذریعے افغان نوجوان اپنی رائے دے سکیں گے۔
’’پاکستان میں افغان مہاجرین کی اکثریت نوجوانوں پر مشتمل ہے، یعنی 10 سال سے 24 سال کی عمر کے افغانوں کی تعداد کافی زیادہ ہے۔۔۔ اس منصوبے کے ذریعے ہم اُنھیں با اختیار بنا رہے ہیں کہ افغان مہاجرین کے حوالے سے جو بھی فیصلے ہوں، اُس میں افغان نوجوانوں کی آواز شامل کی جائے۔‘‘
دنیا اسلم خان نے کہا کہ پاکستان میں نوجوان افغان مہاجرین کے لیے یہ اپنی نوعیت کا پہلا منصوبہ ہے، جس میں باآسانی زیادہ سے زیادہ نوجوان شامل ہو سکتے ہیں۔
بچوں سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے ’یونیسف‘ کے ایک بیان کے مطابق موبائل فون کو استعمال کرتے ہوئے افغان نوجوان مہاجرین اپنے علاقوں کے مسائل بشمول صحت، تعلیم اور دیگر فلاحی کاموں کے بارے میں رائے دے سکتے ہیں۔
اگرچہ گزشتہ سال پاکستان سے افغانستان واپس جانے والے افغان مہاجرین کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے لیکن ’یو این ایچ سی آر‘ کے مطابق اب بھی پاکستان میں لگ بھگ 13 لاکھ اندارج شدہ افغان مہاجرین آباد ہیں۔
جب کہ پاکستان حکام کے مطابق لگ بھگ 10 لاکھ افغان شہری بغیر کوائف کے اندارج کے پاکستان کے مختلف علاقوں میں رہ رہے ہیں۔
پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جس نے سب سے زیادہ مدت تک مہاجرین کی میزبانی کی۔ پاکستانی حکومت نے اندراج شدہ افغان پناہ گزینوں کے پاکستان میں قیام کی مدت دسمبر 2017ء تک مقرر کر رکھی تھی۔
واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے ہی ’یو این ایچ سی آر‘ اور پاکستان کی وزارت برائے سرحدی اُمور نے پاکستان میں موجود افغان و پاکستانی نوجوانوں کو مختلف ہنر سکھانے کے ایک منصوبے کا اعلان کیا تھا۔
اس منصوبے کا ایک مقصد بھی یہ بھی ہے کہ افغان نوجوانوں کو ایسے ہنر سکھائے جائیں تاکہ جب وہ اپنے وطن واپس جائیں تو اپنے مستقبل کے ذرائع آمدن کو بہتر بنا سکیں۔