افغانستان کے دو درجن سے زیادہ میڈیا اداروں نے حکومت کے نام خط میں ملک میں اطلاعات تک رسائی میں حائل رکاوٹیں پر شدید نکتہ چینی کی ہے اور ان قومی اداروں کے نام لیے ہیں جو رکاوٹیں ڈالنے کے ذمے دار ہیں۔
یہ خط ایک تقریب میں پڑھا گیا جو پیشہ ورانہ فرائض انجام دیتے ہوئے ہلاک کیے گئے افغان صحافیوں کی یاد میں منعقد کی گئی تھی۔ ہلاک صحافیوں کی یاد میں ایک مینار تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا گیا جبکہ میڈیا اداروں کے نمائندوں نے پابندیوں پر احتجاج کیا۔
خط میں کہا گیا ہے کہ حالیہ برسوں کے دوران اطلاعات تک رسائی کے معاملے پر افغانستان زوال کا شکار ہے۔اطلاعات تک رسائی کے قانون پر عمل درآمد اور آزاد ذرائع ابلاغ کی حمایت کے معاملے میں دوہرے معیار کا عنصر غالب نظر آتا ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ افغانستان میں صحافت جان جوکھوں کا کام ہے جبکہ یہاں کا میڈیا خطے میں آزاد ترین رہا ہے۔ لیکن حکومت کی بے توجہی کے سبب سخت مشکل جھیلنے کے بعد حاصل کردہ کامیابی کو خطرہ لاحق ہے۔
خط میں ان اداروں کو شناخت کیا گیا ہے جو مبینہ طور پر صحافت کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کررہے ہیں۔ ان میں سپریم کورٹ، اٹارنی جنرل کا دفتر، نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سیکورٹی، نیشنل پروکیورمنٹ بیورو، صدارتی دفتر، اور امور خارجہ، داخلہ اور صحت عامہ کی وزارتیں شامل ہیں۔
بیان میں افغان حکومت، بین الاقوامی برادری اور میڈیا کی حامی تنظیموں سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ اطلاعات کی آزادانہ دستیابی، آزادی صحافت اور أفغانستان کی کم سن جمہوریت کے تحفظ کے لیے تمام ممکنہ اقدامات کیے جائیں۔
اس خط پر ردعمل دینے والوں میں صدر اشرف غنی کے ترجمان صدیق صدیقی شامل تھے۔ انہوں نے ایک ٹوئیٹ میں کہا کہ حکومت ذرائع ابلاغ کی آزادی کے تحفظ کے لیے کوشاں ہے۔ ملک میں میڈیا کی موجودگی بے مثال اور تعداد وسیع ہے جو ہر اعتبار سے ریکارڈ ہے۔ ہم ہر رکاوٹ کو دور کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اشرف غنی کے معاون ترجمان دعویٰ خان میناپال نے سوال اٹھایا کہ اگر حکومت کی جانب سے اطلاعات کو روکنے یا رسائی نہ دینے کی کوئی خاص مثالیں ہوں تو ان کی تفصیل فراہم کی جائے کیونکہ اس وضاحت کی ضرورت ہے۔ صحافیوں نے حالیہ برسوں کا جو حوالہ ہے؛ اس سے پتا نہیں چل رہا کہ کتنے برسوں کا ذکر کیا جا رہا ہے۔
روزنامہ ’افغانستان ویسا‘ کے ایڈیٹر ان چیف زبیر شفیق نے کہا ہے کہ افغان حکومت کی جانب سے اطلاعات تک رسائی کی پالیسیوں پر نفاذ میں دھیان نہ دینے کا معاملہ بنیادی رکاوٹ ہے، جس کی وجہ سے ملک کے داخلی امور سے متعلق اصل رپورٹنگ میں مشکل درپیش آتی ہے۔
ادھر، پیرس میں قائم ’رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز‘ سے وابستہ رضا معینی نے کہا ہے کہ ملک کی موجودہ صورت حال کو دیکھتے ہوئے سرکار کی دسترس والی اطلاعات تک رسائی کے قانون پر عمل درآمد میں حکومت کی ناکامی قابل تسلیم نہیں ہے۔ اس بات کو یقینی بنانا ریاست کی ذمے داری ہے کہ صحافیوں کو بغیر رکاوٹ کے اطلاعات تک رسائی میسر ہو۔
کابل میں امریکی سفارت خانے کے ناظم الأمور راس ولسن نے ٹوئٹر پر کہا کہ کسی بھی آزاد اور منصفانہ ملکی نظام کے لیے اطلاعات اہم ذریعہ ہوتے ہیں۔ اس بات ضرورت ہے کہ حکام پریس کے ساتھ مل کر کام کریں تاکہ افغان جمہوریت مضبوط ہو۔
رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز نے سال 2019 کے عالمی آزادی صحافت کی فہرست میں افغانستان کو 121ویں نمبر پر رکھا ہے.