حسیب دانش علی کوزئی
سنہ 2016ء کے بعد، گذشتہ سال صحافیوں کے لیے افغانستان مہلک ترین ثابت ہوا، جب پیشہ وارانہ خدمات بجا لاتے ہوئے، 21 اخباری نمائندے ہلاک ہوئے۔ اس بات کا دعویٰ ایک غیر سرکاری تنظیم ، ’این اے آئی‘ نے اپنی ایک رپورٹ میں کیا ہے، جو افغانستان میں ذرائع ابلاغ کی آزادی کو سربلند رکھنے کے کام سے وابستہ ہے۔
’این اے آئی‘ کے انتظامی سربراہ، عبدالمجیب خلوتگر نے گذشتہ ہفتے اخباری نمائندوں کو بتایا کہ اُن کی تنظیم افغانستان میں نامہ نگاروں کے خلاف تشدد کی کارروائیوں کے 141 مقدمات درج کیے ہیں۔
خلوتگر کے بقول، ’’اس نئی رپورٹ کی بنیاد پر، بتایا گیا ہے کہ افغان حکومت اور سرکار سے وابستہ اہل کار تشدد کے 62 مقدمات میں ملوث ہیں، جن میں اخباری نمائندوں پر تشدد کیا گیا؛ دہشت گرد گروہ 42 مقدمات میں جوابدہ ہیں؛ جب کہ 26 مقدمات غیر قانونی مسلح گروپوں کے خلاف درج ہیں‘‘۔
خلوتگر نے مزید کہا کہ ’’11 مقدمات ایسے ہیں جن پُر تشدد واقعات میں ذرائع ابلاغ کے آجر شامل ہیں‘‘۔
اُنھوں نے مزید بتایا کہ سال 2017ء میں، افغانستان میں 23 اخباری نمائندے زخمی ہوئے، جب کہ 21 دیگر صحافت سے وابستہ لوگ حملے کا شکار ہوئے۔
افغان عدلیہ پر نکتہ چینی
خلوتگر نے زور دے کر کہا ہے کہ افغان حکومت اِن ہلاکتوں کی ذمہ دار نہیں ہے۔
دولت اسلامیہ کے لیے داعش کا مخفف استعمال کرتے ہوئے، خلوتگر نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ ’’طالبان، داعش اور چند دیگر معاملات میں نامعلوم افراد میڈیا کے عملے اور صحافیوں کی ہلاکت کے ذمے دار رہے ہیں۔ حکومتِ افغانستان کسی طور پر اِن ہلاکتوں میں ملوث نہیں ہے‘‘۔
تاہم، اُنھوں نے ملک کی عدلیہ پر تنقید کی، جس نے اب تک اخباری نمائندوں کے خلاف تشدد سے صرف 43 مقدمات کی شنوائی کی ہے۔
حالیہ برسوں کے دوران افغانستان میں دہشت گرد گروپوں کی جانب سے صحافیوں کے خلاف حملوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔
آٹھ دسمبر کو ایک احاطے پر خود کش حملہ ہوا جہاں خبر رساں ادارے، ’افغان وائس‘ اور ’تبیان ثقافتی مرکز‘ واقع ہیں، کم از کم 40 افراد ہلاک جب کہ درجنوں زخمی ہوئے؛ جن میں متعدد اخباری نمائندے تھے۔
داعش کے شدت پسند گروپ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
نومبر کے اوائل میں، افغان نیشنل پولیس کے بھیس میں مسلح افراد نے دارالحکومت کابل میں واقع نجی ’شمشاد ٹیلی ویژن‘ کے صدر دفتر پر حملہ کیا، جس میں عملے کا ایک فرد ہلاک جب کہ متعدد زخمی ہوئے۔
داعش نے اس حملے کی بھی ذمے داری قبول کی ہے۔
حملے کے بعد، افغانستان میں اقوام متحدہ کے اعانتی مشن نے کہا ہے کہ صحافی سولین ہیں جنھیں نشانہ نہیں بنایا جانا چاہیئے۔