افغانستان کے صدر اشرف غنی پیر سے بھارت کے دورے کا آغاز کر رہے ہیں جس میں امید ہے کہ بھارتی قیادت اپنے سابق اتحادی ملک کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کی پوری کوشش کرے گی۔
افغانستان کی صدارت سنبھالنے کے بعد اشرف غنی کا بھارت کا یہ پہلا دورہ ہے جن کے پیش رو حامد کرزئی کے دور میں بھارت اور افغانستان کے تعلقات میں گرم جوشی عروج پر تھی۔
لیکن صدر غنی نے اقتدار سنبھالنے کے بعد افغانستان کے پڑوسی ملکوں پاکستان، ایران اور چین کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے پر توجہ دی ہے اور وہ بھارت سے قبل ہی ان تینوں ملکوں کا دورہ کرچکے ہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ صدر غنی نئی دہلی جانے سے قبل اسلام آباد اور بیجنگ کی یاترا کرکے اپنی حکومت کی خارجہ پالیسی کی سمت واضح کرچکے ہیں جو ان کے پیش رو حامد کرزئی سے بالکل مختلف ہے جو لگ بھگ ہر سال ہی بھارت جایا کرتے تھے۔
بعض تجزیہ کاروں کے خیال میں بھارت سے افغان فوج کو ہتھیار اور جنگی تربیت دینے کی بار بار درخواستوں پر بھارت کی سست پیش رفت نے افغان حکومت کو نئی دہلی سے مایوس کردیا ہے اور اب وہ مدد کے لیے اپنے پڑوسی ملکوں کی طرف دیکھ رہی ہے۔
صدر غنی کے دورے سے ایک ہفتے قبل بھارت نے کابل کو وہ تین فوجی ہیلی کاپٹر دے دیے ہیں جو گزشتہ سال فراہم کیے جانے تھے۔ لیکن بھارتی حکومت نے افغان حکومت کی جانب سے دی جانے والی ٹینکوں اور دیگر بھارتی اسلحے کی فہرست تاحال منظور نہیں کی ہے جو جنگ زدہ افغانستان بھارت سے لینا چاہتا ہے۔
اطلاعات ہیں کہ صدر اشرف غنی کی حکومت نے بھارت کی جانب سے کوئی واضح جواب نہ ملنے کے باعث ہتھیاروں کی فراہمی کی اس درخواست پر اصرار ترک کردیا ہے۔
افغانستان پر امریکی حملے کے نتیجے میں طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد سے بھارت گزشتہ 15 برسوں کے دوران افغانستان میں سڑکوں، شاہراہوں، اسکولوں اور سرکاری عمارتوں سمیت بنیادی ڈھانچے کی تعمیر پر دو ارب ڈالر خرچ کرچکا ہے۔
امکان ہے کہ صدر اشرف غنی کے دورے کے دوران بھارتی حکومت افغانستان کی مسلح افواج کو تربیت کی فراہمی کے معاملے میں دونوں ملکوں کے درمیان تعاون کو مزید فروغ دینےکا اعلان کرسکتی ہے۔