افغانستان کے صدر اشرف غنی نے کہا ہے کہ افغان عوام کسی دوسرے مسئلے کے حل سے قبل فوری جنگ بندی اور تشدد کا خاتمہ چاہتے ہیں۔
بدھ کو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے اپنے ورچوئل خطاب میں صدر اشرف غنی نے کہا کہ ایک ریاست اور معاشرے کی حیثیت سے ہم نے طالبان کے ساتھ براہ راست امن مذاکرات شروع کرنے جیسے مشکل فیصلے کیے ہیں۔
اشرف غنی کا خطاب ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب دوحہ میں افغان دھڑوں اور طالبان کے درمیان بین الافغان مذاکرات جاری ہیں۔ تاہم جنگ بندی پر تاحال اتفاق رائے نہیں ہو سکا ہے۔
افغان صدر کا کہنا تھا کہ اگرچہ طالبان کے ساتھ مذاکرات جاری ہیں، تاہم خطے میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ہمیں بنیادی وجوہات کا تعین کر کے اسے ایک عالمی مسئلے کے طور پر حل کرنا ہو گا۔
اُنہوں نے کہا کہ افغان عوام کو اس وقت سب سے زیادہ ضرورت امن کی ہے تاکہ اُن کے لیے ترقی کا دروازہ کھل سکے۔
صدر غنی نے کہا کہ افغانستان میں قیامِ امن کے لیے اقوامِ متحدہ کا کردار نہایت مثبت رہا ہے، جب کہ عالمی سطح پر جنگ بندی کی اپیلوں پر بھی وہ دنیا کے ممالک کے شکر گزار ہیں۔
صدر غنی نے مزید کہا کہ ایک ایسے وقت میں جب ہماری مذاکراتی ٹیم طالبان کے ساتھ مذاکرات کر رہی ہے، اقوامِ متحدہ اور ہمارے بین الاقوامی شراکت داروں اور اتحادیوں کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل رہے گا۔
افغان صدر کی جانب سے ایک بار پھر جنگ بندی کی اپیل پر تاحال طالبان کا ردعمل سامنے نہیں آیا۔
لیکن طالبان کا اس سے قبل یہ موقف رہا ہے کہ وہ افغانستان میں ایک دیرپا اور جامع امن معاہدہ طے پانے تک جنگ بندی کا مطالبہ پورا نہیں کر سکتے۔
یاد رہے کہ حال ہی میں افغانستان میں تشدد کے واقعات میں غیر معمولی اضافے پر عالمی برادری نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے افغان فریقوں سے تشدد کم کرنے پر زور دیا تھا۔
افغان امور کے تجزیہ کار رحیم اللہ یوسف زئی کا کہنا ہے کہ افغان حکومت اور امریکہ کا ہمیشہ سے یہ موقف رہا ہے کہ جنگ بندی ہو تاکہ حالات سازگار ہو جائیں اور امن مذاکرات آگے بڑھ سکیں۔
رحیم اللہ کے بقول یہ مطالبہ اس وقت بھی کیا گیا تھا جب امریکہ اور طالبان کے درمیان معاہدہ طے پانے کے قریب تھا۔
ان کے بقول اب چوں کہ افغان حکومت طالبان کے ساتھ براہ راست بات چیت کر رہی ہے، اس لیے وہ جنگ بندی کا معاملہ بار بار اٹھار رہی ہے اور عالمی فورم پر ایسے بیانات دے کر دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔
تاہم رحیم اللہ کے بقول طالبان بین الافغان مذاکرات میں نمایاں پیش رفت ہونے کی صورت میں شاید تشدد میں کمی یا محدود جنگ بندی پر تیار ہو جائیں۔
اُن کا کہنا ہے کہ جب ایسی صورتِ حال پیدا ہوئی کہ طالبان کو یہ محسوس ہو کہ بین الافغان مذکرات کے دوران افغان حکومت طالبان کی بعض شرائط ماننے کے لیے تیار ہے تو پھر طالبان ایسا کر سکتے ہیں۔
رحیم اللہ یوسف زئی کے بقول طالبان محدود مدت کے لیے جنگ بندی پر صرف اسی صورت آمادہ ہو سکتے ہیں جب وہ اپنے جنگجوؤں کو یہ باور کرا سکیں گے کہ اس کے نتیجے میں انہیں کچھ حاصل ہو رہا ہے۔
تاہم رحیم اللہ کے بقول افغان امن مذاکرات کی کامیابی کے لیے طرفین کو کچھ لو اور کچھ دو سے کام لینا ہو گا۔
قطر کے دارالحکومت دوحہ میں افغان حکومت اور طالبان کے درمیان بین الافغان مذاکرات کے سلسلے میں ابتدائی بات چیت کا عمل جاری ہے اور ان کے درمیان مذاکرات کے کئی دور ہو چکے ہیں۔