افغانستان کے صدر اشرف غنی منصب سنبھالنے کے بعد پاکستان کے اپنے پہلے دورے پر جمعہ کو اسلام آباد پہنچے۔
وفاقی دارالحکومت میں آمد کے بعد اُن کی پاکستانی عہدیداروں سے ہونے والے ملاقاتوں میں دوطرفہ تعلقات کے فروغ پر اتفاق کیا گیا۔
پاکستانی وزیراعظم کے مشیر برائے اُمور خارجہ و قومی سلامتی سرتاج عزیز نے ہوائی اڈے پر افغان صدر کا استقبال کیا جس کے بعد ہونے والی ملاقات میں معاشی اور تجارتی شعبوں کو وسعت دینے پر اتفاق کیا گیا۔
افغان صدر نے جمعہ کو راولپنڈی میں پاکستانی فوج کے صدر دفتر میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے بھی اہم ملاقات کی۔
اس ملاقات میں سلامتی کی صورت حال اور خاص طور پر سرحد کی نگرانی سے متعلق طریقہ کار پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔
افغانستان کے صدر کے اس دورے کو دونوں ملکوں کے تعلقات میں بہتری کے لیے انتہائی اہم قرار دیا جا رہا ہے۔ افغان سرحد کے قریب واقع پاکستانی صوبہ خیبر پختونخواہ کی سابق حکمران جماعت عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفند یار ولی نے پشاور میں ایک تقریب سے خطاب میں کہا کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے دونوں ملکوں کے درمیان مکمل ہم آہنگی ضروری ہے۔
’’جب تک مملکت افغانستان اور مملکت پاکستان دونوں فیصلہ نہیں کرتے تب تک دہشت گردی اس خطے سے ختم نہیں ہو سکتی۔ یہ بھی دونوں سے کہنا چاہتا ہوں کہ پرامن افغانستان کے بغیر پرامن پاکستان کا وجود نہیں ہو گا اور نا ہی پرامن پاکستان کے بغیر افغانستان پرامن ہو سکتا ہے۔‘‘
افغانستان کے صدر اشرف غنی کے ہمراہ ایک اعلیٰ سطحی وفد بھی پاکستان آیا ہے جس میں تاجر برادری کے نمائندے بھی شامل ہیں۔
دونوں ملکوں کے درمیان اس وقت سالانہ تجارت کا حجم ڈھائی ارب ڈالر ہے۔
پاکستان کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور اُن کے افغان ہم منصب عمر زخی وال کے درمیان ہونے والی ملاقات میں موجودہ سالانہ دوطرفہ تجارت کے حجم کو آئندہ دو سے تین سال کے درمیان پانچ ارب ڈالر تک بڑھانے پر بھی اتفاق کیا گیا۔
پاکستان افغانستان مشترکہ چیمبر آف کامرس کے صدر محمد زبیر موتی والا نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ دوطرفہ تجارت کا فروغٖ یقینی طور پر ممکن ہے۔ لیکن اُن کے بقول اس کے لیے اعتماد کی فضا کی ضرورت ہے۔
افغان صدر کی ایک اہم ملاقات ہفتہ کو وزیراعظم نواز شریف سے ہونی ہے جس میں حکام کے مطابق تمام دوطرفہ معاملات کے علاوہ علاقائی صورت حال پر بھی بات چیت کی جائے گی۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات اتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں لیکن توقع کی جا رہی ہے کہ اشرف غنی کے صدر بننے کے بعد ان پڑوسی ملکوں کے تعلقات بہتری کی طرف گامزن ہوں گے۔
پاکستانی عہدیدار بھی یہ کہہ چکے ہیں کہ ایک پرامن اور مستحکم افغانستان خود پاکستان کے مفاد میں ہے اور وہ پڑوسی ملک کے ساتھ تعلقات کے نئے باب کا آغاز کرنا چاہتے ہیں۔
افغانستان میں ستمبر میں شراکت اقتدار کے معاہدے کے بعد پہلی مرتبہ پرامن انتقال اقتدار کا مرحلہ طے پایا تھا جس کے نتیجے میں اشرف غنی صدر اور عبداللہ عبداللہ ملک کے پہلے چیف ایگزیکٹو مقرر ہوئے تھے۔
اس کے بعد سے اعلیٰ پاکستانی عہدیدار بشمول فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف افغانستان کا دورہ کر چکے ہیں۔