افغانستان کے صدر اشرف غنی نے ایک قانونی مسودے پر دستخط کیے ہیں جس سے بچوں کی پیدائش کے سرٹیفکیٹ کے ساتھ ساتھ شہریوں کے قومی شناختی کارڈ پر ماں کا نام بھی درج کرنے کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں نے نئے قانون کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ یہ افغان خواتین اور ان کے حقوق کے لیے کام کرنے والوں کی بڑی کامیابی ہے، جو طویل عرصے سے عورت اور مرد کے مساوی حقوق کے لیے جدو جہد کر رہے تھے۔
خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے گروپس کا کہنا ہے کہ اس سے معاشرے میں خواتین کے مقام و مرتبے میں اضافہ ہو گا اور ان کے لیے تعلیم اور روزگار کے حصول کا راستہ کھل جائے گا۔
صدر اشرف غنی کے ترجمان نے جمعے کو ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ اس صدارتی فرمان سے ماں کا نام قانونی طور پر بچے کے قومی شناختی کارڈ میں دوسرے کوائف کے ساتھ شائع کیا جائے گا۔
جنوبی ایشیا کے اس پس ماندہ ملک میں اب تک قومی شناختی کارڈ پر صرف والد کا نام ہی درج کیا جاتا تھا۔
انسانی حقوق کے گروپس کا کہنا ہے کہ افغان معاشرے کی خواتین ایک انتہائی پسا ہوا طبقہ ہیں، جنہیں مرد کی اطاعت کرنا ہوتی ہے۔
اس قدامت پسند معاشرے میں لوگ کھلے عام اپنے خاندان کی خواتین کا نام لینا بھی معیوب سمجھتے ہیں۔
ہیومن رائٹس واچ کے ایک عہدے دار ہیدر بر نے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ افغانستان میں خواتین کے حقوق کے بارے اچھی خبریں ہر روز نہیں آتیں۔
ان کے بقول اس حق کے لیے طویل عرصے سے جدوجہد کرنے والے سرگرم کارکنوں کو انتہائی اہم کامیابی کا جشن منانا چاہیے۔
نیویارک میں قائم انسانی حقوق کے اس گروپ نے یہ کہتے ہوئے نئے قانون کو سراہا ہے کہ اس کا افغان معاشرے کی حقیقی زندگی پر گہرا اثر پڑے گا۔
بیان کے مطابق اس سے خواتین کے لیے تعلیم، صحت کی سہولتیں، پاسپورٹ، اپنے بچوں کی دستاویزات اور بچوں کے ہمراہ سفر کرنا آسان ہو جائے گا۔
ہیومن رائٹس واچ نے کہا ہے کہ اس قانون کا نمایاں طور پر فائدہ ان خواتین کو ہو گا جو بیوہ ہیں، یا جنہیں طلاق ہو چکی ہے۔ یا جو اپنے شوہر سے الگ ہو چکی ہیں یا جنہیں اپنے شریک حیات کی جانب سے بدسلوکی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
افغانستان میں یہ تاریخی قانون سازی ایک ایسے موقع پر ہوئی ہے جب دوحہ میں افغان حکومت کے نمائندوں اور طالبان کے درمیان 19 سالہ خانہ جنگی کے خاتمے اور قیام امن کے لیے مذاکرات ہو رہے ہیں۔
بہت سی افغان خواتین کو یہ خدشہ ہے کہ عسکریت پسند اسلامی گروہ کے ساتھ مذاکرات کے نتیجے میں ان حقوق کو واپس لیا جا سکتا ہے جو انہوں نے طویل جدوجہد کے بعد حاصل کیے ہیں۔
انسانی حقوق کی تنظیمیں کابل حکومت پر مسلسل یہ دباؤ ڈال رہی ہیں کہ طالبان کے ساتھ حتمی معاہدے میں یہ یقینی بنایا جائے کہ وہ خواتین کے حقوق کی مکمل طور پر پاسداری کریں گے۔
طالبان نے 1990 کے عشرے میں افغانسان پر اپنی حکومت کے دوران سخت اسلامی قوانین نافذ کرتے ہوئے خواتین کی تعلیم اور گھر سے باہر کی سرگرمیوں پر پابندی لگا دی تھی۔
تقریباً 19 سال قبل امریکہ پر القاعدہ کے دہشت گرد حملوں کے بعد امریکی قیادت میں بین الاقوامی فورسز نے کابل میں القاعدہ کی میزبان طالبان کی حکومت کا خاتمہ کر دیا تھا۔
سن 2001 کے بعد سے افغان خواتین نے غیر ملکی امداد سے زندگی کے ہر شعبے میں نمایاں ترقی کی ہے۔ اب لاکھوں لڑکیاں تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔ خواتین ملازمتیں کر رہی ہیں۔ وہ میڈیا، سرکاری محکموں اور پارلیمنٹ سمیت ہر جگہ موجود ہیں۔
طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے والے سرکاری وفد میں بھی خواتین شامل ہیں۔