افغانستان کی حکومت نے طالبان کے 100 قیدی رہا کرنے کا اعلان کیا ہے۔ طالبان بھی اپنی حراست میں موجود 20 افغان فوجی اہلکاروں کو رہا کریں گے۔ طالبان اور افغان حکام کا کہنا ہے کہ قیدیوں کی رہائی کا عمل جمعرات سے شروع ہو رہا ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ قیدیوں کا تبادلہ افغان دھڑوں اور طالبان کے مابین بین الافغان مذاکرات سے قبل اعتماد سازی کی فضا قائم کرنے کے سلسلے میں ہو رہا ہے۔
طالبان ترجمان ذبیع اللہ مجاہد کا کہنا ہے کہ قیدیوں کی رہائی سے متعلق تیکنیکی امور طے کرنا باقی ہیں۔ لہذٰا قیدیوں کے تبادلے میں ایک دو روز کی تاخیر بھی ہو سکتی ہے۔
اس سے قبل افغان صدر اشرف غنی کے دفتر کے ایک اعلیٰ عہدے دار نے کہا تھا کہ قیدیوں کی رہائی کا عمل جمعرات سے شروع ہو رہا ہے۔
دوسری طرف طالبان یہ کہہ چکے ہیں کہ قیدیوں کا تبادلہ اس ہفتے شروع ہو گا اور فریقین کی تیکنیکی ٹیمیں کرونا وائرس کے پیش نظر قیدیوں کی وصولی کا طریقہ کار طے کر رہی ہیں۔
افغان حکام سے بات چیت کے لیے طالبان کی تیکنیکی ٹیم منگل کو کابل پہنچی تھی۔ جہاں انہوں نے قیدیوں کی رہائی کے معاملے پر عالمی امدادی ادارے آئی سی آر سی کے حکام کی موجودگی میں افغان حکام سے بات چیت کی۔
امریکہ کے وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے قیدیوں کی رہائی اور بین الافغان مذاکرات کے لیے افغان قیادت کی طرف سے مذاکراتی ٹیم کی تشکیل کو اچھی خبر قرار دیا ہے۔
منگل کو واشنگٹن ڈی سی میں ایک نیوز کانفرنس کے دوران مائیک پومپیو نے کہا کہ "ہم نے دیکھ لیا ہے کہ مذاکراتی ٹیم تشکیل دے دی گئی ہے۔ جو ایک جامع ٹیم ہے۔ ہمارے لیے یہ خوشی کی بات ہے۔"
ابتداً افغانستان کے صدر اشرف غنی نے طالبان قیدیوں کی رہائی پر تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ البتہ امریکی حکام کی مداخلت کے بعد افغان حکومت ان قیدیوں کو رہا کرنے پر رضا مند ہوئی تھی۔
طالبان نے شرط عائد کی تھی کہ جب تک اُن کے قیدیوں کو رہا نہیں کر دیا جاتا۔ اُس وقت تک وہ بین الافغان مذاکرات میں شامل نہیں ہوں گے۔
کابل حکومت میں اختلافات کے باعث بھی قیدیوں کی رہائی کا معاملہ زیرِ التوا تھا۔ جس پر امریکہ نے ناراضگی کا اظہار کیا تھا۔
یاد رہے کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان قطر کے دارالحکومت دوحہ میں طے پانے والے امن معاہدے کے تحت بین الافغان مذاکرات سے قبل افغان حکومت نے پانچ ہزار طالبان قیدیوں کو رہا کرنا تھا۔ جس کے بدلے طالبان نے بھی افغان حکومت کے ایک ہزار قیدی رہا کرنے ہیں۔