افغان حکومت نے امریکہ طالبان مذاکرات کاروں کے درمیان طے پانے والے امن سمجھوتے کے مسودے پر اظہار تشویش کرتے ہوئے، کہا ہے کہ اس پر ’’مزید وضاحت کی ضرورت ہے‘‘۔
یہ بات صدر اشرف غنی کے خاص ترجمان نے بدھ کے روز بتائی ہے۔
سمجھوتے کے تحت تقریباً 5000 امریکی فوجوں کا انخلا ہوگا، پانچ فوجی اڈے بند ہوں گے، جس کے بدلے ضمانتیں چاہیے ہوں گی کہ افغاستان کی سرزمین امریکہ کے خلاف شدت پسند حملوں کی پناہ گاہ کے طور پر استعمال نہیں ہوگی۔
یہ مسودہ خصوصی امریکی ایلچی برائے افغان امن، زلمے خلیل زاد نے اس ہفتے صدر غنی کو پیش کیا تھا۔
تاہم، طالبان کی طرف سے دارالحکومت کابل اور ملک بھر کے صوبائی مراکز میں حملوں میں شدت آنے کے بعد سمجھوتے کے بارے میں مختلف سمتوں سے شبہات کا اظہار کیا جا رہا ہے، جن میں کئی سابق امریکی اہلکار اور سیاست دان شامل ہیں۔
غنی کے ترجمان، صدیق صدیقی نے ایک ٹوئٹر پیغام میں تحریر کیا ہے کہ ’’افغان حکومت کو اس بات پر بھی تشویش ہے، اس لیے ہم چاہیں گے کہ اس دستاویز کی مزید وضاحت سامنے آئے، تاکہ خطرات اور منفی نتائج کا مکمل طور پر جائزہ لیا جائے، اور خدشات دور کیے جائیں‘‘۔
رائٹرز کی خبر کے مطابق، افغان حکومت کے متعدد اہلکار جنھیں طالبان کی جانب سے مذاکرات سے انکار کے بعد بات چیت سے الگ رکھا گیا ہے، جسے وہ غیر ملک کی طرف سے مسلط کردہ ’’کٹھ پتلی‘‘ حکومت سمجھتے ہیں، افغان حکومت کو شدید تشویش ہے کہ سمجھوتے کے نتیجے میں بہت کچھ دیا جائے گا جب کہ طالبان کو دوبارہ اقتدار میں آنے کی اجازت مل جائے گی۔
حالیہ دنوں کے دوران، باغی جنگجوؤں کے بڑے گروہوں نے قندوز اور پل خمری کے شمالی شہروں پر حملہ کیا ہے۔ طالبان نے پیر کی رات کابل میں بھاری حصار والے محفوظ علاقے میں غیر ملکی تنظیموں کے زیر استعمال دفاتر پر بڑے ٹریکٹر بم سے کیے جانے والے حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔