رسائی کے لنکس

عبداللہ عبداللہ کی نریندر مودی سے ملاقات، افغان امن عمل پر بات چیت


افغانستان کی قومی مفاہمت کی اعلیٰ کونسل کے سربراہ عبداللہ عبداللہ نے بھارت کے دورے میں جمعرات کو وزیرِ اعظم نریندر مودی سے ملاقات کی ہے۔
افغانستان کی قومی مفاہمت کی اعلیٰ کونسل کے سربراہ عبداللہ عبداللہ نے بھارت کے دورے میں جمعرات کو وزیرِ اعظم نریندر مودی سے ملاقات کی ہے۔

افغانستان کی قومی مفاہمت کی اعلیٰ کونسل کے سربراہ عبداللہ عبداللہ نے بھارت کے دورے میں جمعرات کو وزیرِ اعظم نریندر مودی سے ملاقات کی ہے۔ ملاقات میں افغان امن عمل اور خطے کی سیاسی صورتِ حال پر تبادلۂ خیال کیا گیا۔

ملاقات کے بعد عبداللہ عبداللہ نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ وزیرِ اعظم مودی نے افغانستان میں قیامِ امن کے لیے اپنی بھرپور حمایت کی یقین دہانی کرائی ہے۔

انہوں نے کہا کہ وزیرِ اعظم سے مل کر مجھے خوشی ہوئی۔ ہم نے اپنے دوستانہ تبادلۂ خیال میں افغان امن عمل کی تازہ صورتِ حال، دوحہ میں ہونے والی بات چیت اور امن عمل میں بھارت کی حمایت پر بات چیت کی۔

ان کے بقول وزیرِ اعظم مودی نے یقین دلایا ہے کہ بھارت افغانستان کی حمایت جاری رکھے گا۔

ملاقات کے بعد بھارت کی وزارت خارجہ کے ترجمان انوراگ سری واستو نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ وزیرِ اعظم نے بھارت اور افغانستان کے درمیان گہرے تعلقات کو مزید آگے بڑھانے کے عزم کا اعادہ کیا۔

قبل ازیں عبداللہ عبداللہ نے بدھ کی شام کو قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول سے ملاقات کی اور امن مذاکرات اور باہمی تعلقات پر تبادلہ خیال کیا۔

ملاقات کے بعد عبداللہ عبداللہ نے ٹوئٹ میں کہا کہ افغان امن عمل اور دوحہ میں ہونے والے مذاکرات پر اجیت ڈوول کے ساتھ تعمیری تبادلہ خیال ہوا۔

ان کے بقول اجیت ڈوول نے امن عمل میں بھارت کی مکمل حمایت کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کہ کسی بھی ایسے امن معاہدے کی، جو افغان عوام کے لیے قابل قبول ہو، بھارت حمایت کرے گا۔

ڈوول نے مزید کہا کہ بھارت ایک ایسے آزاد، جمہوری، پر امن اور خود مختار افغانستان کے حق میں ہے جہاں دہشت گرد گروپ سرگرم نہ ہوں۔

عبداللہ عبداللہ کو دیے گئے عشائیے میں سیکریٹری خارجہ، چیف آف ڈیفنس اسٹاف، آرمی چیف، وزارتِ خارجہ کے اعلیٰ حکام اور افغان مصالحتی کونسل کے کلیدی ارکان نے بھی شرکت کی۔

ایک سابق سفارت کار سریش گوئل نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ بھارت کا ہمیشہ یہ مؤقف رہا ہے کہ اگر افغانستان کی قیادت میں مذاکرات ہوتے ہیں اور کوئی حل نکلتا ہے اور اس سے افغانستان میں امن قائم ہوتا ہے تو بھارت اس کی حمایت کرے گا۔

اس سوال پر کہ اگر امن معاہدے کے بعد افغانستان میں طالبان برسر اقتدار آتے ہیں یا اقتدار میں ان کی شراکت ہوتی ہے اس وقت بھارت کی افغان پالیسی کیا ہو گی؟ انہوں نے کہا کہ وقت کے ساتھ ساتھ چیزیں بدلتی رہتی ہیں۔

سریش گوئل نے یہ بھی کہا کہ وہ طالبان کے بارے میں تو کچھ نہیں کہہ سکتے لیکن افغانستان سے بھارت کے بہت گہرے تعلقات ہیں، بھارت وہاں متعدد ترقیاتی منصوبوں پر کام کر رہا ہے اور اس ترقیاتی شراکت داری کے سلسلے میں طالبان کی جانب سے ابھی تک کوئی منفی رد عمل سامنے نہیں آیا ہے۔

سریش گوئل نے کہا کہ امن مذاکرات کے بعد افغانستان میں طالبان برسراقتدار آتے ہیں یا کوئی اور اقتدار میں آتا ہے اس پر کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا۔ لیکن افغانستان کی زیرِ قیادت ہونے والے امن عمل کے بعد اور بیرونی مداخلت کے بغیر جو بھی حکومت میں آیا بھارت کو اس پر اعتراض نہیں ہو گا۔

بعض دیگر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مذاکرات کی کامیابی کے بعد افغانستان میں کیسی صورتِ حال پیدا ہوتی ہے اس پر تو ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن ان کو اس بات کا یقین ہے کہ جو بھی حالات ہوں بھارت افغان تعلقات متاثر نہیں ہوں گے اور بھارت کے ترقیاتی منصوبوں پر بھی کوئی اثر نہیں پڑے گا۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG