رسائی کے لنکس

سانحہ عباس ٹاوٴن سے متعلق رپورٹ غیر تسلی بخش قرار


عدالت نے کہا ہے کہ عباس ٹاوٴن دھماکے سے متعلق تحقیقات کیلئے اہل و دیانتدار افسران پر مشتمل تفتیشی ٹیم بنائی جائے

عدالت عظمیٰ نے سانحہ عباس ٹاوٴن سےمتعلق رپورٹ غیرتسلی بخش قراردے دی ہے اور حکم دیا ہے کہ تین روز میں دوبارہ رپورٹ جمع کرائی جائے۔

جمعہ کو سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں کراچی بدامنی اور سانحہ عباس ٹاوٴن از خود نوٹس کیس کی طویل سماعت چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے کی۔

تحریری حکم میں عدالت نے کہا ہے کہ عباس ٹاوٴن دھماکے سے متعلق تحقیقات کیلئے اہل و دیانتدار افسران پر مشتمل تفتیشی ٹیم بنائی جائے۔ ملٹری انٹیلی جنس اور آئی ایس آئی کو آئندہ تین روز میں رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا گیا جبکہ سیکریٹری دفاع اور داخلہ کو بھی نوٹسز جاری کیے گئے۔

عدالت نے سانحہ عباس ٹاوٴن کے متاثرین کو سرکاری سطح پر رہائش فراہم کرنے کا حکم بھی دیاہے۔

اس سے پہلے کمشنر کراچی نے عدالت کو بتایا کہ سانحے کے سات افرادلاپتہ ہیں۔ انھوں نے عدالت میں متاثرین کو چیک کی فہرست بھی جمع کرادی۔ چیف سیکریٹری، ڈی جی رینجرز، جوائنٹ ڈائریکٹر آئی بی، کمشنر کراچی،آئی جی سندھ، سابق آئی جی سندھ نے عدالت کو چیمبر میں بریفنگ دی۔

ججزکا کہنا تھا کہ کراچی میں کوئی فرقہ ورانہ مسئلہ نہیں بلکہ یہ مفادات کا معاملہ ہے، پولیس اور رینجرز کی موجودگی میں دہشت گرد انسانی زندگی کا خاتمہ کرکے غائب ہو جاتے ہیں۔ ڈی جی رینجرز اور آئی جی سندھ جائیں اور دہشت گردوں کے خلاف کام کریں عدالت مکمل حمایت کرے گی۔

دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ بادی النظر میں اداروں میں معلومات کی شیئرنگ کافقدان ہے۔ شہر میں 8000 پولیس اہلکار وی آئی پیز کی حفاظت کیلئے مختص ہیں، میرے خیال میں جتنے وزرا اور عہدیداران ہیں ان کیلئے 2000 اہلکار بھی کافی ہیں۔ پولیس کو سیاست سے الگ کرنے کا عدالتی حکم دیا گیا تھا لیکن اس پر بھی عملدرآمد نہیں ہو سکا۔

عدالتی حکم میں یہ بھی کہا گیا کہ انسداد دہشت گردی کی عدالتوں کی حالت بہت خراب ہے۔ ان عدالتوں میں 631 مقدمات زیر سماعت ہیں۔ اگر ان کا فیصلہ ہوتا تو حالات بہتر ہوتے۔ مزید 15 سے 20 انسداد دہشت گردی کی عدالتیں قائم کی جائیں۔

انسداد دہشت گردی عدالتوں سے بری ہونے والے ملزمان کے مقدمات کا جائزہ لیا جائے اور ناقص تفتیش کرنے والے افسران کے خلاف فوری کارروائی عمل میں لائی جائے۔ سیشن ججز کو مقدمات نمٹانے کیلئے خصوصی اختیارات دیئے جائیں۔ یہ اختیارات تین ماہ کیلئے ہوں۔
XS
SM
MD
LG