پارلیمنٹ کے مون سون اجلاس کے پہلے دِن بھارتیہ جنتا پارٹی کے سینئر لیڈر، ایل کے آڈوانی کے متنازع حکومت مخالف بیان پرایوان میں زبردست ہنگامہ کھڑا ہو گیا، یہاں تک کہ کانگریس صدرسونیا گاندھی نے آڈوانی سےمعذرت طلب کی۔
آڈوانی نے آسام میں ہونے والے فسادات پر ہونے والی بحث کے دوران بولتے ہوئے دوسری مدت کی یو پی حکومت کو ناجائز قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس حکومت کو بچانے کےلیے کروڑوں روپے خرچ کیے گئے تھے۔
موجودہ حکومت کو ناجائز قرار دیے جانے پر ایوان میں غیرمعمولی ہنگامہ ہوا۔ سونیا گاندھی نے انتہائی مشتعل انداز میں بیان واپس لینے کا مطالبہ کیا۔اُنھوں نے حکمراں بینچوں کی جانب رخ کرتے ہوئے اپنے ارکان سے کہا کہ وہ آڈوانی کو اپنا بیان واپس لینے پر مجبور کریں۔
کافی شور و غل کے بعد، ایل کے آڈوانی نےاپنا بیان واپس لیا اور وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اُنھوں نے حکومت کو نہیں بلکہ 2008ء میں پارلیمنٹ کےاندر جس انداز میں اعتماد کا ووٹ حاصل کیا گیا تھا اُسے غیر قانونی قرار دیا تھا۔آڈوانی کے اس بیان پر متعددد ارکارنِ پارلیمنٹ نے شدید ردِعمل ظاہر کیا ہے۔
سونیا گاندھی نے جہاں اسے ایوان اور حکومت کی توہین قرار دیا وہیں وزیر اعظم نےانتہائی ناشائستہ بیان بتایا۔ بعد میں، آڈوانی نے کہا کہ آسام فسادات کو فرقہ وارانہ فساد کہنے کے بجائے ہندوستان اور غیر ہندوستان کے بیچ ہونے والا فساد کہنا چاہیئے، کیونکہ بقول اُن کے، بنگلہ دیشی دراندازوں اور مقامی بوڈو آبادی کے مابین فساد ہوا ہے، جب کہ مسلم تنظیموں اور سیکولر لیڈروں کے خیال میں یہ مسلم مخالف فساد تھا، جس میں حکومت کےمطابق 70سے زائد جب کہ آزادانہ ذرائع کے مطابق سینکڑوں افراد مارے گئے ہیں۔
آڈوانی نے آسام میں ہونے والے فسادات پر ہونے والی بحث کے دوران بولتے ہوئے دوسری مدت کی یو پی حکومت کو ناجائز قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس حکومت کو بچانے کےلیے کروڑوں روپے خرچ کیے گئے تھے۔
موجودہ حکومت کو ناجائز قرار دیے جانے پر ایوان میں غیرمعمولی ہنگامہ ہوا۔ سونیا گاندھی نے انتہائی مشتعل انداز میں بیان واپس لینے کا مطالبہ کیا۔اُنھوں نے حکمراں بینچوں کی جانب رخ کرتے ہوئے اپنے ارکان سے کہا کہ وہ آڈوانی کو اپنا بیان واپس لینے پر مجبور کریں۔
کافی شور و غل کے بعد، ایل کے آڈوانی نےاپنا بیان واپس لیا اور وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اُنھوں نے حکومت کو نہیں بلکہ 2008ء میں پارلیمنٹ کےاندر جس انداز میں اعتماد کا ووٹ حاصل کیا گیا تھا اُسے غیر قانونی قرار دیا تھا۔آڈوانی کے اس بیان پر متعددد ارکارنِ پارلیمنٹ نے شدید ردِعمل ظاہر کیا ہے۔
سونیا گاندھی نے جہاں اسے ایوان اور حکومت کی توہین قرار دیا وہیں وزیر اعظم نےانتہائی ناشائستہ بیان بتایا۔ بعد میں، آڈوانی نے کہا کہ آسام فسادات کو فرقہ وارانہ فساد کہنے کے بجائے ہندوستان اور غیر ہندوستان کے بیچ ہونے والا فساد کہنا چاہیئے، کیونکہ بقول اُن کے، بنگلہ دیشی دراندازوں اور مقامی بوڈو آبادی کے مابین فساد ہوا ہے، جب کہ مسلم تنظیموں اور سیکولر لیڈروں کے خیال میں یہ مسلم مخالف فساد تھا، جس میں حکومت کےمطابق 70سے زائد جب کہ آزادانہ ذرائع کے مطابق سینکڑوں افراد مارے گئے ہیں۔