آسام میں بوڈو قبائلیوں اور مسلمانوں کے درمیان بھڑک اُٹھنے والے بدترین فسادات کا زور کم ہوگیا ہے اور لوگ رفتہ رفتہ اپنے گھروں کو لوٹنے لگے ہیں۔ لیکن، پناہ گزیں کیمپوں میں صحت کےتعلق سے ہنگامی حالات پیدا ہوگئےہیں۔
ریاستی حکومت کے مطابق کیمپوں میں داخل 8000بچوں میں سے 6000بیمار پڑ گئے ہیں، جب کہ 13افراد کی موت واقع ہوگئی ہے۔مرنے والوں میں دو بچے بھی شامل ہیں۔
حکومت کےخیال میں پناہ گزیں کیمپوں میں جو سینکٹروں کی تعداد میں ہیں متاثرین کی بہت زیادہ بھیڑ کی وجہ سے وبائی امراض کے پھیلنے کا خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔
کیمپوں میں لوگوں کو کھانے پینے کی اشیاٴ اور ادویات کی زبردست قلت کی شکایت ہے۔یہ پناہ گزیں کیمپ فسادات کے شکار کھوکھراجار، چرانگ اور دھوبری اضلاع میں واقع ہیں جِن میں سرکاری اور نجی تنظیموں کے کیمپ شامل ہیں۔
ریاست کی وزیرِ صحت، ہمانتا بسوا سارما کےمطابق 303کیمپوں میں 8000افراد کےخون کی جانچ سے پتا چلا ہے کہ 100سے زائد افرادملیریا میٕں مبتلہ ہیں۔ اِن کیمپوں میں جہاں ساڑھے تین لاکھ افراد پناہ گزیں ہیں، مریضوں کی دیکھ بھال کے لیے محض 117ڈاکٹر ہیں، جِن میں 30 ڈاکٹر مرکز کے بھیجے ہوئے ہیں۔
ڈاکٹروں نے اب تک ڈائریا کے تقریباً 15000، پیچش کے تقریبا 400اور بخار میں مبتلہ 23000مریضوں کا علاج کیا ہے۔
دوسرے امراض میں مبتلہ 36000لوگوں کا بھی علاج کیا گیا ہے۔
وزیر صحت نے مزید بتایا کہ اِن کیمپوں میں جہاں 8000سے زائد بچے ہیں، وہیں تقریباً 9000حاملہ خواتین بھی ہیں جن کو ادویات کی شدید ضرورت ہے۔اُنھوں نے دعویٰ کیا کہ انتظامیہ پوری کوشش کر رہی ہے کہ کیمپوں میں وبائی امراض نہ پھوٹنے پائیں۔
یاد رہے کہ چھ جولائی کو شروع ہونے والے فسادات میں سرکاری اعداد و شمار کےمطابق 50سے60افراد ہلاک ہوئے ہیں، جب کہ آزادانہ ذرائع کے مطابق، ہلاک شدگان کی تعداد سینکڑوں میں ہے، جِن میں اکثریت مسلمانوں کی ہے۔
ریاستی حکومت کے مطابق کیمپوں میں داخل 8000بچوں میں سے 6000بیمار پڑ گئے ہیں، جب کہ 13افراد کی موت واقع ہوگئی ہے۔مرنے والوں میں دو بچے بھی شامل ہیں۔
حکومت کےخیال میں پناہ گزیں کیمپوں میں جو سینکٹروں کی تعداد میں ہیں متاثرین کی بہت زیادہ بھیڑ کی وجہ سے وبائی امراض کے پھیلنے کا خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔
کیمپوں میں لوگوں کو کھانے پینے کی اشیاٴ اور ادویات کی زبردست قلت کی شکایت ہے۔یہ پناہ گزیں کیمپ فسادات کے شکار کھوکھراجار، چرانگ اور دھوبری اضلاع میں واقع ہیں جِن میں سرکاری اور نجی تنظیموں کے کیمپ شامل ہیں۔
ریاست کی وزیرِ صحت، ہمانتا بسوا سارما کےمطابق 303کیمپوں میں 8000افراد کےخون کی جانچ سے پتا چلا ہے کہ 100سے زائد افرادملیریا میٕں مبتلہ ہیں۔ اِن کیمپوں میں جہاں ساڑھے تین لاکھ افراد پناہ گزیں ہیں، مریضوں کی دیکھ بھال کے لیے محض 117ڈاکٹر ہیں، جِن میں 30 ڈاکٹر مرکز کے بھیجے ہوئے ہیں۔
ڈاکٹروں نے اب تک ڈائریا کے تقریباً 15000، پیچش کے تقریبا 400اور بخار میں مبتلہ 23000مریضوں کا علاج کیا ہے۔
دوسرے امراض میں مبتلہ 36000لوگوں کا بھی علاج کیا گیا ہے۔
وزیر صحت نے مزید بتایا کہ اِن کیمپوں میں جہاں 8000سے زائد بچے ہیں، وہیں تقریباً 9000حاملہ خواتین بھی ہیں جن کو ادویات کی شدید ضرورت ہے۔اُنھوں نے دعویٰ کیا کہ انتظامیہ پوری کوشش کر رہی ہے کہ کیمپوں میں وبائی امراض نہ پھوٹنے پائیں۔
یاد رہے کہ چھ جولائی کو شروع ہونے والے فسادات میں سرکاری اعداد و شمار کےمطابق 50سے60افراد ہلاک ہوئے ہیں، جب کہ آزادانہ ذرائع کے مطابق، ہلاک شدگان کی تعداد سینکڑوں میں ہے، جِن میں اکثریت مسلمانوں کی ہے۔