رسائی کے لنکس

یوکرین سے سینکڑوں بھارتی شہریوں کے انخلا میں مدد کرنے والا پاکستانی کون ہے؟


معظم خان پاکستان کے شہر تربیلہ غازی کے رہنے والے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ان کے پاس مدد کے لیے بیشتر کالز بھارت کے فون نمبرز سے آ رہی تھیں اور وہ یہ دیکھے بغیر کے کون کہاں سے کال کر رہا ہے طلبہ کے کوائف جمع کر رہے تھے۔
معظم خان پاکستان کے شہر تربیلہ غازی کے رہنے والے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ان کے پاس مدد کے لیے بیشتر کالز بھارت کے فون نمبرز سے آ رہی تھیں اور وہ یہ دیکھے بغیر کے کون کہاں سے کال کر رہا ہے طلبہ کے کوائف جمع کر رہے تھے۔

روس نے جب 24 فروری کو یوکرین میں پیش قدمی کی تو کئی دن سے ملک میں موجود بے یقینی کی صورتِ حال میں رہنے والے افراد میں افراتفری پھیل گئی اور وہ محفوظ مقامات پر منتقل ہونے کے لیے بے چین ہو گئے۔

یوکرین میں ہزاروں غیر ملکی طلبہ وہاں سے نکلنے کے لیے کوشاں نظر آئے۔ بس ٹرمینل بھر گئےاور بسوں میں جگہ نہیں رہی۔

یوکرین کے شہر ترنوپل میں 11 سال سے مقیم پاکستان سے تعلق رکھنے والے ٹوور آپریٹر معظم خان طاہر خیلی ابھی دوسرے شہروں کی طرح تیزی سے تبدیل ہوتی صورتِ حال کا جائزہ لے ہی رہے تھے کہ انہیں بعض بھارتی اور پاکستانی نژاد طلبہ کی انخلا میں مدد کے لیے ٹیلی فون کالز موصول ہوئیں۔ ان میں سے بیشتر طلبہ ان کو پہلے سے جانتے تھے۔

معظم خان کی عمر 28، 29 برس ہے۔ وہ ان طلبہ کے حوالے سے کہتے ہیں کہ یہ بچے مدد کے لیے پکار رہے تھے۔ 17 یا 18 سال کے بچے ہی تو ہوتے ہیں۔

اس سے قبل بھی معظم خان 2014 کی روس اور یوکرین کی جنگ دیکھ چکے ہیں اور بحران کی صورتِ حال میں لوگوں کی مدد کا تجربہ رکھتے ہیں۔ حالیہ تنازع میں بھی وہ لوگوں کی مدد کے لیے فوری طور پر حرکت میں آئے۔

ادھر وہ مختلف شہروں میں پھنسے طلبہ کے لیے بسوں کا انتظام کر رہے تھےتو دوسری طرف ان کے بقول ان کا فون تھا جو مستقل بجے ہی جا رہا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ یوکرین میں ہر پاکستانی اور بھارتی طالب علم اس مشکل وقت میں 'خان بھائی' کو اپنی آخری امید سمجھ کر کال کر رہا تھا۔

اسی طرح ہزاروں میل دور بھارت سے بھی معظم خان سے مستقل رابطے کی کوشش ہو رہی تھی۔ کرونا وائرس کے دوران 2020 میں بھارت کے شہر پونے کے رہائشی نتیش سنگھ نے ٹیم 'ایس او ایس' انڈیا کی بنیاد رکھی تھی۔

نتیش سنگھ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں ایس او ایس تنظیموں کا کام دیکھ چکے تھے اور بھارت میں کرونا وبا کی دوسری لہر کی تباہ کاری کے دوران عوام کی مشکلات دیکھتے ہوئے انہوں بھارت کے کونے کونے میں مدد پہنچانے کے لیے نیٹ ورکنگ پر مبنی حکمتِ عملی تیار کی۔

یوکرین اور روس کے درمیان بگڑتی ہوئی صورتِ حال کو دیکھ کر نتیش سنگھ پہلے ہی بھارت کے شہریوں کے لیے ایک فارم تیار کر کے یوکرین میں پڑھنے والے طلبہ کے حلقوں میں تقسیم کر چکے تھے جس میں طلبہ نے اپنی تفصیلات درج کی تھیں کہ کس کے پاس کتنی سہولیات میسر ہیں۔

نتیش سنگھ کے مطابق کسی ممکنہ حملے کے دوران یہ تفصیلات مدد کے طالب طلبہ کے لیے فائدہ مند ثابت ہو سکتی تھیں۔

یوکرین میں بھارت کے لگ بھگ 18 ہزار طلبہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں جن میں بیشتر میڈیکل کے طالب علم ہیں۔ افراتفری، سڑکیں جام ہو جانے اور بسوں کی کمی کی وجہ سے نئی دہلی کے کیف میں سفارت خانے کو طلبہ کی اتنی بڑی تعداد کے انخلا میں مشکلات کا سامنا تھا۔ کچھ ایسی ہی صورت حال پاکستان کے سفارت خانے کی بھی تھی۔ روسی پیش قدمی کے وقت پاکستان کے تقریباً تین ہزار طلبہ یوکرین میں تعلیم حاصل کر رہے تھے۔

دوسری طرف پونے میں نتیش سنگھ بھارتی طلبہ کو با حفاظت نکالنے کے لیے پرعزم تھے۔ انہوں نے بھارت سے ہی یوکرین میں مختلف ٹرانسپورٹ کمپنیز سے رابطہ کرنا شروع کیا۔ نتیش سنگھ کے مطابق ان میں اکثر کمپنیاں اس کام کے لیے منہ مانگے دام مانگ رہی تھیں۔

معظم خان پاکستان کے شہر تربیلہ غازی کے رہنے والے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ان کے پاس مدد کے لیے بیشتر کالز بھارت کے فون نمبرز سے آ رہی تھیں اور وہ یہ دیکھے بغیر کے کون کہاں سے کال کر رہا ہے طلبہ کے کوائف جمع کر رہے تھے۔

چند گھنٹوں میں ہی معظم کو اندازہ ہو گیا تھا کہ یوکرین میں مختلف شہروں سے طلبہ کو سرحد تک پہنچانے کے کام کے لیے 10 یا 20 نہیں بلکہ کم از کم 100 بسیں درکار ہوں گی۔

بھارتی مددگار تنظیم ٹیم ایس او ایس انڈیا کے بانی ممبر نتیش سنگھ۔ (فائل فوٹو)
بھارتی مددگار تنظیم ٹیم ایس او ایس انڈیا کے بانی ممبر نتیش سنگھ۔ (فائل فوٹو)

ایسی غیر یقینی کی صورتِ حال میں جب معظم خان کو اپنے کاروبار کے مستقبل کے بارے میں بھی کچھ نہیں پتا تھا۔ انہوں نے طلبہ سے وہی کرایہ طلب کیا جو عام دنوں میں سرحد تک پہنچانے کے لیے دیا جاتا ہے۔

معظم خان کا کہنا تھا کہ جب آپ کے سامنے کوئی ضرورت مند کھڑا ہو تو آپ کیسے اپنے فائدے کا سوچ سکتے ہیں؟

وہ بتاتے ہیں کہ ایسے بھی بہت سے طلبہ تھے جن کے پاس پیسے ختم ہو گئے تھے یا اے ٹی ایم خالی ہو جانے کی وجہ سے وہ رقم نکلوانے سے قاصر تھے۔ انہوں نے انہیں بھی بسوں میں سوار کرایا۔ ان کے بقول پیسوں نے کہاں جانا ہے،وہ آ ہی جائیں گے؟

ایک تنہا پاکستانی شہری کے شروع کیے گیے اس آپریشن میں مختلف اقوام کے تقریباً ساڑھے تین ہزار طلبہ کا انخلا ممکن بنایا گیا۔

نتیش سنگھ کے مطابق معظم خان کی مدد سے دو سے ڈھائی ہزار بھارتی طلبہ بارڈر پار کرنے میں کامیاب ہوئے۔

معظم خان کی مدد سے باحفاظت بارڈر پار کر نے والے طلبہ ان کے مشکور ہیں۔ان میں شامل شبھم جراتی نےان کو شکریہ ادا کرتے ہوئے لکھا کہ ان کی وجہ سے طلبہ کی اتنی بڑی تعداد بارڈر پار کر گئی۔ ان کے بقول اور لوگوں نے بھارت اور پاکستان کے شہریوں کو بانٹ رکھا ہے۔

ایک اور بھارتی طالب علم منمیت سنگھ نے پیغام بھیجا کہ لوگوں کی سوچ سے ہی لوگ جڑتے ہیں۔ کبھی محسوس نہیں ہوا کہ وہ بھارت سے ہیں اور معظم خان پاکستان سے۔ سچ میں سب کی طرف سے شکریہ ۔

معظم اور نتیش کا رشتہ بھی مفادات اور ملکی سیاست و نفرت سے پاک ہے۔ اس رشتے کی بنیاد ہی انسانیت اور مدد کے جذبے پر رکھی گئی تھی۔ نتیش اور معظم نہ کبھی ملے اور نہ ایک دوسرے کو دیکھا بلکہ معظم تو اب تک یہ بھی نہیں جانتے کہ نتیش کا تعلق کسی بھارتی تنظیم سے ہے۔

بھارت میں رہنے والے نتیش سنگھ پاکستانی ڈرامے بہت شوق سے دیکھتے ہیں اور اداکار ہمایوں سعید اور حرا مانی کے مداح ہیں۔

بھارت کے طالب علم کا معظم خان کو بھیجا گیا پیغام۔
بھارت کے طالب علم کا معظم خان کو بھیجا گیا پیغام۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے نتیش سنگھ نے بتایا کہ بس ابھی حرا مانی کے ڈرامے کی نئی قسط آنے ہی والی ہے جس کا وہ انتظار کر رہے ہیں۔

نتیش سنگھ کا ماننا ہے کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان اختلافات سیاسی ہیں عوام تو ایک ہی ہیں۔ وہ 'معظم بھائی' کے شکر گزار ہیں جو اس مشکل وقت میں طلبہ کے کام آئے۔

نتیش سنگھ کا مزید کہنا تھا کہ مشکل وقت میں شہریوں کی فوری مدد کے لیے ایس او ایس تنظیموں کا کردار کلیدی ہوتا ہے اور اگر کوئی پاکستان میں اس طرز پر تنظیم بنانا چاہتا ہے تو وہ تکنیکی مدد فراہم کرنے اور نیٹ ورکنگ کا عمل سکھانے میں خوشی محسوس کریں گے۔

بھارتی مددگار تنظیم، طلبہ اور معظم خان کی یہ اس کہانی دل گرما دینے والی کہانی ہے۔ ایک پاکستانی معظم خان نے ہزاروں بھارتی طلبہ کی پاکستان کے بارے میں رائے ہمیشہ کے لیے تبدیل کر دی۔

معظم خان کا کہنا ہے کہ اگر وہ اس موقعے پر پیسے کماتے تو اس پیسے نے تو ایک نہ ایک دن ختم ہو جانا تھا۔ ان کی اصل اور نہ ختم ہونے والی کمائی یہی ہے کہ یہ بچے انہیں ہمیشہ اچھے الفاظ میں یاد رکھیں گے۔

معظم خان طاہر خیلی آج کل ترنوپل میں ہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اب گھر یہی ہے اور ترنوپل میں نسبتاً حالات بہتر بھی ہیں تو انہوں نے فی الحال کہیں جانے کے بارے میں نہیں سوچا۔

یوکرین کے ایک چھوٹے قصبے میں ان کے بھائی بھابھی پھنسے ہوئے ہیں اور معظم خان آج کل انہیں وہاں سے نکالنے اور بارڈر کراس کرنے کے خواہش مند کچھ دیگر پاکستانی خاندانوں کی مدد میں مصروف ہیں۔

رات کو ترنوپل میں کرفیو لگ جاتا ہے تو معظم گھر کی بتیاں بجھا کر صبح ہونے کا انتظار کرتے ہیں کہ پتا نہیں کب کسی کی مدد کے لیے فون کال آجائے۔

XS
SM
MD
LG