رسائی کے لنکس

قطبی سمندر کی تہہ میں غرق ہونے والی کشتی سو سال بعد  مل گئی


سمندر کی تہہ میں 10 ہزار فٹ کی گہرائی میں 100 سال سے پڑی ہوئی شیکلٹن کی کشتی
سمندر کی تہہ میں 10 ہزار فٹ کی گہرائی میں 100 سال سے پڑی ہوئی شیکلٹن کی کشتی

برطانیہ کے ایک تاریخ ساز مہم جو ارنسٹ شیکلٹن نے ایک سو سال قبل انٹارکٹک کے منجمد سمندر کو کشتی پر عبور کرنے کا خواب دیکھا تھا۔ اس دشوار اور پرخطر سمندری سفر میں انہیں تو اپنے خواب کی تعبیر نہ مل سکی، البتہ جنوبی افریقہ کے مہم جوؤں کے ایک اور گروپ کو انٹارکٹک کے قریب ایک منجمد سمندر میں 10 ہزار فٹ کی گہرائی میں شیکلٹن کی ڈوبی ہوئی کشتی مل گئی ہے۔

ایک ایسے سمندر میں جس کی سطح پر برف کی پرتیں تیر رہی ہوں اور پانی کا درجہ حرارت صفر کے قریب ہو، اس کی تہہ میں 10 ہزار فٹ کی گہرائی میں اترنا اور وہاں کے گھپ اندھیروں میں سو سال پرانی کشتی کے ڈھانچے کو ڈھونڈ نکالنا بھی شیکلٹن کی منجمد سمندر عبور کرنے کی مہم جوئی سے کچھ کم نہیں ہے۔

کشتی تلاش کرنے والی ٹیم کا کہنا ہے کہ ایک صدی گزر جانے کے باوجود کشتی بہت اچھی حالت میں ہے، حتیٰ کہ اس میں استعمال کی جانے والی لکڑی تک کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ کشتی کا وہ گول پہیہ، جسے ملاح کشتی کا رخ موڑنے کے لیے استعمال کرتے تھے، اتنی اچھی حالت میں ہے کہ یوں لگتا ہے کہ جیسے کپتان ابھی آ کر اسے گھمائے گا اور اپنے سفر کا آغاز کر دے گا۔

برفانی سمندر میں غرق ہونے والی کشتی کی تلاش "فاک لینڈز میری ٹائم ہیری ٹیج" نےفروری میں شروع کی تھی اور اپنی اس مہم کو" ایکسپیڈیشن اینڈورینس 22" کا نام دیا تھا۔ انہیں یہ کامیابی 8 مارچ کو ملی۔

اس مہم کے ڈائریکٹر مینسن باؤنڈ نے کہا ہے کہ میں نے کسی ڈوبی ہوئی قدیم کشتی کے ڈھانچے میں اتنی اچھی حالت میں لکڑی اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھی۔

سمندری تاریخ کے ایک ماہر سٹیون شوانکرٹ کہتے ہیں کہ دنیا کے انتہائی مشکل ماحول میں اتنی محفوظ حالت میں سو سال سے ڈوبی ہوئی کشتی کا ملنا ایک بہت بڑا واقعہ ہے۔ لیکن ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس کی وجوہات واضح ہیں۔ سمندر میں دس ہزار فٹ کی گہرائی تک سورج کی روشنی نہیں پہنچتی۔ وہاں گھپ اندھیرا ہوتا ہے۔ شدید تاریکی اور انتہائی ٹھنڈے پانی میں کوئی بیکٹریا زندہ نہیں رہتا۔ وہ حشرات بھی وہاں تک نہیں پہنچ سکتے جو لکڑی کو نقصان پہنچاتے ہیں۔

انٹارکٹک کے قریب یخ سمندر کی گہرائی سے دریافت ہونے والی سو سال پرانی کشتی اچھی حالت میں ہے۔
انٹارکٹک کے قریب یخ سمندر کی گہرائی سے دریافت ہونے والی سو سال پرانی کشتی اچھی حالت میں ہے۔

کشتی تلاش کرنے والی اس ٹیم نے شیکلٹن کی ڈوبی ہوئی کشتی کی کچھ تصویریں اور ویڈیو جاری کی ہے جس میں وہ اچھی حالت میں دکھائی دے رہی ہے۔ اس پر سونے کے ورق سے کندہ ہوا کشتی کا نام "اینڈورینس" نمایاں طور پر پڑھا جا سکتا ہے۔

اینڈورینس 22 کے سفر کا آغاز جنوبی افریقہ کے شہر کیپ ٹاؤن سے ہوا تھا۔ مہم کی مشکلات اور چیلنجز کے پیش نظر یہ سفر ایک ایسے بحری جہاز میں شروع کیا گیا جو برف کی ایک میٹر تہہ کو توڑ کر اپنے لیے راستہ بنانے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ اس ٹیم میں ایک سو سے زیادہ ماہرین شامل تھے، جن میں انجنیئرز ، آثار قدیمہ کے ماہرین، سائنس دان اور محقیقن شامل تھے۔ عملے کے پاس ایسے جدید ڈرون بھی موجود تھے جو ہزاروں فٹ گہرائی میں سمندرکی تاریک تہہ کو کھنگال سکتے تھے اور اس کی تصویریں اتار سکتے تھے۔

اس ٹیم نے انٹارکٹک کے قریب بحیرہ ویڈل میں اس جگہ پہنچ کر تلاش کا کام شروع کیا جہاں 1915 میں شیکلٹن کی کشتی "اینڈورینس" غرق ہوئی تھی۔

ماہرین کی ٹیم نے اس پورے علاقے میں پانی کی تہہ میں چلنے والے ڈرونز کی مدد سے سمندر کے چپے چپے کو چھلنی کی طرح چھانا۔ دو ہفتوں تک جاری رہنے والی اس عرق ریزی کے بعد انہیں کشتی کا سراغ مل گیا۔

مہم کے سربراہ جان شیئرز کہتے ہیں کہ اس سفر سے اینڈورینس کی دریافت ہی نہیں ہوئی بلکہ قطبی علاقے کے دشوار ترین علاقے کے سمندر کی تاریک تہہ میں تلاش کی ایک مشکل ترین مہم بھی سر ہوئی ہے جس کی تاریخ میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔

کشتی پر سونے کی پتری سے کندہ نام اینڈورینس ایک سو سال گزرنے کے بعد بھی اچھی حالت میں ہے۔
کشتی پر سونے کی پتری سے کندہ نام اینڈورینس ایک سو سال گزرنے کے بعد بھی اچھی حالت میں ہے۔

کشتی کی تلاش کی طرح ارنسٹ شیکلٹن کی مہم جوئی کی تاریخ میں کوئی اور مثال موجود نہیں ہے۔

وہ کشتی کے ذریعے قطب جنوبی کے برفانی سمندر انٹارکٹک عبور کرنے والے پہلے مہم جو کے طور پر تاریخ میں اپنا نام لکھوانا چاہتے تھے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ اس عظیم سمندر میں اپنا ایک قدم بھی نہ رکھ سکے اور کشتی قریبی سمندر ویڈل میں غرق ہو گئی۔

برطانیہ کی پورٹس ماؤتھ یونیورسٹی کے سمندری تاریخ کے ایک ماہر این کوٹس کا کہنا ہے کہ اپنے زمانے کے اعتبار سے شیکلٹن نے اپنے خواب کو تعبیر دینے کے لیے ہر ممکن کوشش کی تھی۔ ایک صدی پہلے انہوں نے ایک ایسی بڑی کشتی تیار کروائی جو سمندر میں تیرتے ہوئے برف کے ٹکڑوں اور برف کی پرتوں کو توڑ کر اپنے لیے راستہ بنانے کی صلاحیت رکھتی تھی۔ لیکن انہیں قطبی علاقے کی برف کی نوعیت کا پوری طرح ادراک نہیں تھا۔ چنانچہ اپنے خصوصی ڈیزائن کے باوجود اینڈرینس برف کا مقابلہ نہ کر سکی اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئی۔

شیکلٹن نے اس کا تذکرہ اپنی ڈائری میں کچھ ان الفاظ میں کیا ہے، "اینڈرینس بھاری برف سے ٹکرانے کی شدت برداشت نہیں کر سکتی"۔

پھر اسی ڈائری میں آگے چل کر انہوں نے لکھا ہے کہ "شام پانچ بجے ہمارا سفر ختم ہو گیا کیونکہ کشتی برباد ہو چکی ہے۔ انسانی ہاتھوں کا بنایا ہوا کوئی بھی جہاز برف کے اس دباؤ کو برداشت نہیں کر سکتا"۔

انٹارکٹک کی ایک خاص پہچان وہاں پائے جانے والے پینگؤئن ہیں۔
انٹارکٹک کی ایک خاص پہچان وہاں پائے جانے والے پینگؤئن ہیں۔

جب ان کی مہماتی کشتی غرق ہونا شروع ہوئی تو انہوں نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ کھانے پینے کی چیزیں اور دوسرا تمام ضروری سامان سمیٹا اور اسے چھوڑ کر تین لائف بوٹس میں منتقل ہو گئے۔ انہیں یخ سمندر میں برف کے تیرتے ہوئے ٹکڑوں پر اپنا کیمپ لگانا پڑا اور اپنا سامان برف پر گھسیٹ کر ایک مقام سے دوسرے مقام پر منتقل کرنے کے لیے خصوصی برفانی کتوں کی بھی مدد لینی پڑی۔

شیکلٹن کی کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی بلکہ پھر برف کی ان تیرتی ہوئی موٹی تہوں سے نکلنے کے بعد مدد حاصل کرنے کے لیے انہیں محض 32 فٹ لمبی کشتی میں یخ سمندری پانیوں میں جنوبی جارجیا تک 1287 کلومیٹر کا سفر طے کرنا پڑا۔

اگرچہ انٹارکٹک عبور کرنے کی یہ مہم ناکام رہی لیکن شیکلٹن نے جس ہمت، حوصلے، عزم، ثابت قدمی اور جوانمردی سے مشکلات و مصائب کا مقابلہ کیا، اس نے انہیں سمندری مہم جوئی کی تاریخ کا ایک ہیرو بنا دیا۔

ان کا انتقال 1922 میں ہوا جس کے ٹھیک ایک سو سال کے بعد جان شیئرز کی ٹیم نے سمندر کی 10 ہزار فٹ گہرائی میں ڈوبی ہوئی کشتی کو ڈھونڈ کر قطبی علاقوں کی مہم جوئی کی نئی تاریخ ہی رقم نہیں کی بلکہ شیکلٹن کے خواب کو تعبیر بھی دے دی ہے۔

  • 16x9 Image

    جمیل اختر

    جمیل اختر وائس آف امریکہ سے گزشتہ دو دہائیوں سے وابستہ ہیں۔ وہ وی او اے اردو ویب پر شائع ہونے والی تحریروں کے مدیر بھی ہیں۔ وہ سائینس، طب، امریکہ میں زندگی کے سماجی اور معاشرتی پہلووں اور عمومی دلچسپی کے موضوعات پر دلچسپ اور عام فہم مضامین تحریر کرتے ہیں۔

XS
SM
MD
LG