پاکستان میں وفاقی تحقیقاتی ادارے "ایف آئی اے" کے شعبہ انسداد دہشت گردی نے سیاسی جماعت متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما عمران فارق کے قتل میں جماعت کے سربراہ الطاف حسین سمیت دیگر افراد کے خلاف مقدمہ درج کر لیا ہے۔
سرکاری ذرائع ابلاغ کے مطابق ایف آئی آر میں الطاف حسین کے علاوہ محمد انور، خالد شمیم ، افتخار حسین، کاشف خان کامران، معظم علی خان اور سید محسن علی کو نامزد کیا گیا ہے اور ان افراد پر عمران فاروق کے قتل کی سازش اور قاتلوں کو معاونت فراہم کرنے کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔
ڈاکٹر عمران فاروق لندن میں جلا وطنی کی زندگی گزار رہے تھے جہاں 16 ستمبر 2010 کو انھیں ان کے گھر کے باہر قتل کر دیا گیا تھا۔
قتل کی اس واردات کے بعد برطانیہ کی پولیس نے بھی تحقیقات شروع کی تھیں اور اس ضمن میں ایک ٹیم پاکستان میں حراست میں لیے گئے افراد سے پوچھ گچھ کے لیے اسلام آباد اور کراچی کا دورہ کر چکی ہے۔
تاہم رواں ہفتے ہی وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے کہا تھا کہ اب تک کی جانے والی تفتیش اور حقائق کی روشنی میں وزارت داخلہ اس کیس کی باقاعدہ ایف آئی آر پاکستان میں درج کروائے گی۔
اس مقدمے میں برطانیہ سے بھی شواہد اور وہاں موجود افراد سے پوچھ گچھ کے لیے رابطہ کیا جائے گا۔ گو کہ دونوں ملکوں کے درمیان ملزمان کے تبادلے کا کوئی معاہدہ تو موجود نہیں لیکن حکام کے بقول انسداد دہشت گردی میں دونوں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے آرہے ہیں اور معلومات کا تبادلہ بھی کیا جاتا رہا ہے۔
رواں برس ہی ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل میں مبینہ طور پر ملوث مرکزی ملزمان کو بلوچستان میں سرحدی علاقے سے گرفتار کیا گیا تھا جب کہ بعد ازاں کراچی سے معظم علی خان نامی شخص کو حراست میں لیتے ہوئے بتایا گیا تھا کہ اس نے دونوں مبینہ قاتلوں کو برطانیہ بھیجنے میں معاونت فراہم کی۔
حکام کا یہ دعویٰ ہے کہ گرفتار کیے گئے افراد کا تعلق متحدہ قومی موومنٹ سے ہے لیکن ایم کیو ایم اس الزام کو مسترد کرتے ہوئے ان افراد سے لاتعلقی کا اظہار کر چکی ہے اور اس کے بقول یہ سب کچھ متحدہ قومی موومنٹ کی ساکھ کو خراب کرنے اور اسے سیاسی انتقام کا نشانہ بنانے کے لیے کیا جا رہا ہے۔