|
اسلام آباد _ پاکستان کی سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں کو نو مئی واقعات سے متعلق 85 ملزمان کے فیصلے سنانے کی مشروط اجازت دے دی ہے۔
جسٹس امین الدین کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے سات رکنی آئینی بینچ نے حکم دیا ہے کہ جن ملزمان کو سزاؤں میں رعایت مل سکتی ہے انہیں رعایت دے کر رہا کیا جائے۔ تاہم جن ملزمان کو رہا نہیں کیا جا سکتا انہیں جیلوں میں منتقل کیا جائے۔
نو مئی کے واقعات میں ملوث ہونے کے الزام پر 103 افراد کو گرفتار کیا گیا تھا اور بعد میں مزید دو لوگوں کو گرفتار کر کے ان کے کیسز فوجی عدالتوں میں بھجوائے گئے تھے۔
ان میں سے 20 افراد کو گزشتہ عید الفطر سے قبل رہا کر دیا گیا تھا لیکن اس وقت بھی 85 افراد فوج کی تحویل میں ہیں جن پر فوجی عدالتوں میں مقدمات چلائے جا چکے ہیں تاہم عدالتی فیصلے کے پیشِ نظر ان کے فیصلے نہیں سنائے گئے تھے۔
گزشتہ برس اکتوبر میں سپریم کورٹ نے عام شہریوں کے ٹرائلز سے متعلق آرمی ایکٹ کی شق ٹو ون ڈی کو کالعدم قرار دیتے ہوئے نو اور 10 مئی کے واقعات میں گرفتار تمام ملزمان کے مقدمات فوجی عدالتوں سے فوجداری عدالتوں میں بھیجنے کا حکم دیا تھا۔
اس کے خلاف پنجاب کی صوبائی حکومت اور وفاق کی جانب سے بھی اپیل دائر کی گئی تھی۔
آئینی بینچ نے جمعے کو ملٹری کورٹس کے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت کی تو اس موقع پر وزارتِ دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیے۔
سماعت کے دوران ایک موقع پر جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ گزشتہ روز ہونے والی سماعت کے دوران بھی کہا تھا کہ نو مئی واقعات کی تفصیلات فراہم کریں، فی الحال تو ہمارے سامنے معاملہ صرف کور کمانڈر ہاؤس کا ہے۔ اگر کیس صرف کور کمانڈر ہاؤس تک ہی رکھنا ہے تو بھی آگاہ کردیں۔
اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ تمام تفصیلات آج صبح ہی موصول ہوئی ہیں۔ مزید تفصیلات متفرق درخواست کی صورت میں جمع کروائیں جائیں گی۔
آئینی بینچ میں شامل جسٹس مسرت ہلالی نے سوال کیا جن دفعات کو کالعدم قرار دیا گیا ہے ان کے تحت ہونے والے ٹرائل کا کیا ہو گا؟ نو مئی سے قبل بھی تو کسی کو ان دفعات کے تحت سزا ہوئی ہو گی؟
اس موقع پر وزارتِ دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے جواب دیا کہ عموماً کالعدم ہونے سے پہلے متعلقہ دفعات پر ہوئے فیصلوں کو تحفظ ہوتا ہے، اس پر جسٹس مسرت نے ریمارکس دیے کہ یہ تو اُن ملزمان کے ساتھ تعصب برتنے والی بات ہو گی۔
'کیس صرف کور کمانڈرز ہاؤس تک رکھنا ہے تو بتا دیں'
وزارتِ دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل میں بتایا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں خرابیاں ہیں جس پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ عدالتی فیصلے کو اتنا بے توقیر تو نہ کریں کہ اسے خراب کہیں جس پر خواجہ حارث نے جواب دیا کہ معذرت خواہ ہوں میرے الفاظ قانونی نوعیت کے نہیں تھے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ کل بھی کہا تھا کہ نو مئی کے واقعات کی تفصیلات فراہم کریں۔ فی الحال تو ہمارے سامنے معاملہ صرف کور کمانڈرز ہاؤس کا ہی ہے۔ اگر کیس صرف کور کمانڈرز ہاؤس تک ہی رکھنا ہے تو یہ بھی بتا دیں۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ تمام تفصیلات آج صبح ہی موصول ہوئی ہیں۔ تفصیلات باضابطہ طور پر متفرق درخواست کی صورت میں جمع کراؤں گا۔
جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ جن دفعات کو کالعدم قرار دیا گیا ہے ان کے تحت ہونے والے ٹرائل کا کیا ہو گا؟ نو مئی سے پہلے بھی تو کسی کو ان دفعات کے تحت سزا ہوئی ہو گی۔
خواجہ حارث نے کہا کہ عمومی طور پر کالعدم ہونے سے پہلے متعلقہ دفعات پر ہونے والے فیصلوں کو تحفظ ہوتا ہے جس پر جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ یہ تو اُن ملزمان کے ساتھ تعصب برتنے والی بات ہو گی۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ آرمی میں کوئی شخص زبردستی نہیں اپنی مرضی سے جاتا ہے۔ آرمی جوائن کرنے والے کو علم ہوتا ہے کہ اس پر آرمی ایکٹ کا اطلاق ہو گا۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا اپیل میں عدالت صرف اپیل کنندہ کی استدعا تک ہی محدود رہے گی؟ کیا عدالت فیصلے کے دیگر پہلوؤں کابھی جائزہ لے سکتی ہے؟ جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ فریقین اپنی معروضات تک محدود رہ سکتے ہیں عدالت نہیں۔
ملٹری کورٹ میں سویلین افراد کا ٹرائل کیس ہے کیا؟
پاکستان میں نو مئی 2023 کے بعد ملک بھر میں ہونے والی ہنگامہ آرائی کے الزام میں سینکڑوں افراد کو گرفتار کیا گیا تھا جن میں سے بیش تر افراد کا تعلق پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) سے تھا۔
ان کارکنوں کی گرفتاری کے بعد سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی گئی کہ سویلین افراد کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں نہیں ہو سکتا۔
بعد ازاں جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں اکتوبر 2023 میں پانچ رکنی بینچ نے فیصلہ دیا کہ سویلین افراد کا ٹرائل ملٹری کورٹس میں نہیں ہو سکتا۔
اس فیصلے کو وفاقی حکومت، وزارتِ دفاع، پنجاب، خیبر پختونخوا اور بلوچستان حکومت نے انٹرا کورٹ اپیلوں کے ذریعے چیلنج کر دیا اور بعدازاں چھ ججوں کے بینچ نے 13 دسمبر 2023 کو یہ فیصلہ پانچ ایک کی اکثریت سے معطل کر دیا۔
انٹرا کورٹ اپیل پر 29 جنوری کو ہونے والی آخری سماعت میں جسٹس سردار طارق مسعود نے انہیں تین ججوں پر مشتمل کمیٹی کے پاس بھیج دیا تاکہ اسے لارجر بینچ کے سامنے سماعت کے لیے مقرر کیا جا سکے۔
22 مارچ کو سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلیں سماعت کے لیے مقرر کی گئی تھیں۔
سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے 20 مارچ کو فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے ملٹری ٹرائل کے خلاف اپیلوں کی جلد سماعت کی درخواست سپریم کورٹ میں دائر کی تھی۔سابق چیف جسٹس کی درخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ اگر اپیل خارج کر دی گئی تو شہریوں کو بلا جواز کئی مہینوں تک فوجی حراست میں رہنا پڑے گا۔
درخواست گزار نے مطالبہ کیا کہ ترجیحی بنیادوں پر 25 مارچ تک کیس کی سماعت کی جائے کیوں کہ شہریوں کے مسلسل فوجی حراست میں رہنے سے ناقابلِ تلافی نقصان ہو گا۔ سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ اُن درخواست گزاروں میں سے ایک ہیں جنہوں نے گزشتہ سال نو مئی کو پر تشدد مظاہروں کے الزام میں گرفتار کیے گئے شہریوں کے فوجی ٹرائل کے خلاف عدالت سے رجوع کیا تھا۔
گزشتہ ہفتے سپریم کورٹ نے سابق چیف جسٹس جسٹس جواد ایس خواجہ کی طرف سے 26 ویں آئینی ترمیم کی موجودگی میں سویلین کے ملٹری ٹرائل کے حوالے سے ایک درخواست دائر کی تھی جس میں آئینی بینچ کو یہ کیس سننے سے احتراز کا کہا گیا تھا لیکن عدالت نے یہ درخواست مسترد کرتے ہوئے سابق چیف جسٹس پر 20 ہزار روپے جرمانہ عائد کر دیا تھا۔
فورم