رسائی کے لنکس

پاکستان میں ٹیکس کم کیوں جمع ہوتا ہے؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو
  • پاکستان کو اگر نیا بیل آوٹ پیکج اسلام آباد کو مل گیا تو یہ پاکستان کے لیے آئی ایم ایف کا 24واں پروگرام ہوگا۔
  • معاشی مبصرین کے مطابق یہ چھ ارب ڈالر کا نیا پروگرام ہوگا جو پاکستان آئندہ تین برس کے لیے حاصل کرنا چاہتا ہے۔
  • ماہرین کہتے ہیں کہ پاکستانی معیشت کا بنیادی مسئلہ اخراجات زیادہ اور آمدنی کم ہونے کے باعث پیدا ہونے والا خسارہ ہے۔

کراچی— پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے مشن نے حکام سے ابتدائی مذاکرات شروع کر دیے ہیں جس کے تحت اسلام آباد کو نیا بیل آوٹ پیکج فراہم کرنے کے لیے غور کیا جارہا ہے۔

معاشی مبصرین کے مطابق یہ چھ ارب ڈالر کا نیا پروگرام ہوگا جو پاکستان آئندہ تین برس کے لیے حاصل کرنا چاہتا ہے۔

اگر یہ بیل آوٹ پیکج اسلام آباد کو مل گیا تو یہ پاکستان کے لیے آئی ایم ایف کا 24واں پروگرام ہوگا۔

ماہرین اور خود آئی ایم ایف نے پاکستانی حکام کو خبردار کیا ہے کہ مالیاتی عدم توازن پر قابو پانے کے لیے ملکی آمدنی میں اضافہ ناگزیر ہے جس کے لیے ضروری اقدامات کرنے ہوں گے تاکہ معاشی واجبات کو کم کیا جا سکے۔

پاکستان کا معاشی مسئلہ ہے کیا؟

یہ ایک اہم سوال ہے کہ پاکستان کو اپنے قیام کے 76 برس بعد بھی لگ بھگ ہر تین سال میں آئی ایم ایف کے پروگرام کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے؟ ماہر معاشیات ڈاکٹر عبد العظیم کا کہنا ہے کہ پاکستانی معیشت کا بنیادی مسئلہ اخراجات زیادہ اور آمدنی کم ہونے کے باعث پیدا ہونے والا خسارہ ہے۔

ان کے بقول اس خسارے کو پورا کرنے کے لیے حکومت کو روپے کی صورت میں قومی بینکوں سے اور غیر ملکی کرنسی کی صورت میں ضرورت پڑنے پر بین الاقوامی مالیاتی اداروں اور ممالک سے قرض لینا پڑتا ہے۔ صورتِ حال اس قدر سنگین ہو چکی ہے کہ پاکستان کو قرضہ ادا کرنے کے لیے نئے قرضے لینا پڑتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس صورتِ حال سے نکلنے کے لیے جہاں اخراجات کو کم کرنا ضروری ہے۔ وہیں آمدنی کو بڑھانا بھی ناگزیر ہے اور اس کے لیے مواقع بھی موجود ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو اپنی آمدنی جسے محصولات بھی کہتے ہیں، انہیں بڑھانے کے لیے بہت سے سیکٹرز پر ٹیکس عائد کرنے کی ضرورت ہے جو اب تک ٹیکس نیٹ سے باہر رہے ہیں یا بہت کم ٹیکس ادا کرتے ہیں اور ایسے میں وہی لوگ زیادہ ٹیکس دینے پر مجبور ہیں جو پہلے سے ٹیکس دے رہے ہیں۔

زراعت پر ٹیکس

ڈاکٹر عبدالعظیم نے مزید بتایا کہ پاکستان میں سب سے زیادہ پیداواری صلاحیت زراعت کی ہے اور یہ قومی آمدنی میں 20 فی صد تک حصہ دار ہے۔ لیکن یہیں ٹیکس کی وصولی کی شرح سب سے کم ہے۔

انہوں نے کہا کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد زراعت چوں کہ صوبائی حکومت کے ماتحت ہے۔ اس لیے زرعی آمدنی پر ٹیکس بھی صوبے وصول کرنے کے مجاز ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اکنامک ڈویلپمنٹ اکنامکس کی ایک ریسرچ رپورٹ کے مطابق مالی سال 2022 میں تمام صوبائی حکومتوں نے مجموعی زرعی انکم ٹیکس صرف 2.4 ارب روپے اکھٹا کیا حالاں کہ یہ ٹیکس جمع کرنے کی صلاحیت 800 ارب روپے تک ہے اور اگر صوبوں کی طرف سے اس ٹیکس کی مناسب وصولی کی جائے تو وفاق کے مجموعی مالیاتی خسارے کو نمایاں طور پر کم کیا جا سکتا ہے۔

ان کے مطابق اس سے ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب بھی بہتر بنایا جا سکتا ہے جو گزشتہ سال 9.2 فی صد اور اس سال کی تین سہ ماہیوں میں محض 6.9 فی صد ریکارڈ کیا گیا ہے۔

ٹیکس نیٹ بڑھانے کی ضرورت

انہوں نے مزید کہا کہ نہ صرف زراعت بلکہ ریئل اسٹیٹ، ٹرانسپورٹ اور دیگر کئی شعبوں میں کام کرنے والوں کے علاوہ ملک میں تاجر بالخصوص ریٹیلرز کی اکثریت ٹیکس نیٹ سے باہر ہے اور انہیں بھی ٹیکس نیٹ میں لانے کی کئی کوششیں ماضی میں ناکام ہو چکی ہیں۔

ایف بی آر کے اعداد و شمار کے مطابق رواں مالی سال کے پہلے آٹھ ماہ کے دوران، خوردہ فروشوں نے تنخواہ دار طبقے کی جانب سے ادا کیے گئے 217 ارب روپے کے مقابلے میں محض 11.2 ارب روپے کا انکم ٹیکس ادا کیا۔

ادھر پاکستان کی معیشت پر اپنی حالیہ رپورٹ میں آئی ایم ایف نے کہا ہے کہ خوردہ فروشوں سے اضافی محصولات اکٹھا کرنے کی کوششوں میں مسلسل تاخیر ہو رہی ہے۔ حال ہی میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے ملک کے تمام صوبائی دارالحکومتوں اور وفاقی دارالحکومت کے تاجروں کے لیے رجسٹریشن اسکیم بھی شروع کی ہے۔ تاہم اب تک رضاکارانہ طور پر خود کو رجسٹر کرانے والے تاجروں کی تعداد انتہائی کم بتائی جاتی ہے۔

ٹیکس ریٹرنز کے نان فائلرز کے خلاف ایکشن

حکومت نے حال ہی میں پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) سے بھی کہا ہے کہ وہ تقریباً پانچ لاکھ نان فائلرز کی سمز بلاک کرے جس پر عمل درآمد کرنے میں موبائل فون کمپنیاں تردد کا شکار نظر آ رہی ہیں اور اسے غیر منصفانہ اور کاروباری اصول کے خلاف قرار دیا جا رہا ہے۔

تاہم ترجمان ایف بی آر کا کہنا ہے کہ ٹیلی کام آپریٹرز نے مینئول طریقے سے چھوٹے بییچز میں سم بلاک کرنے کا عمل شروع کرنے ہر اتفاق کیا ہے۔

اس سلسلے میں جمعے کو پانچ ہزار نان فائلرز پر مشتمل پہلے بیچ کی تفصیلات ٹیلی کام آپریٹرز کو مہیا کر دی گئی ہیں تاکہ ان کی سمز بلاک کرنے کے احکامات پر عمل درآمد کیا جا سکے۔

ترجمان کے مطابق ٹیلی کام آپریٹرز کو روزانہ کی بنیاد پر مزید بیچز بھیجے جائیں گے۔

ادھر ٹیلی کام آپریٹرز نے نان فائلرز کو سمز بلاک کرنے سے خبردار کرنے کے لیے پیغامات بھیجنے کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔

اسمگلنگ اور خفیہ پیداوار

آئی ایم ایف کی حالیہ رپورٹ کہتی ہے کہ تمباکو کے شعبے میں بھی ٹیکس جمع کرنے میں حکومت کو چیلنجز کا سامنا ہے۔

اس شعبے میں ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم کے لازمی نفاذ کے باوجود اسمگلنگ اور خفیہ پیداوار کا سلسلہ جاری ہے۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ نگراں حکومت کی جانب سے شروع کی گئی بعض اصلاحات پر عمل درآمد میں بھی تاخیر ہوئی ہے۔

رپورت کے مطابق اصلاحات پر عمل درآمد میں تیزی لانے کے لیے نئے سرے سے کوششوں کی ضرورت ہے جن میں ٹیکس جمع کرنے والی وفاقی اتھارٹی یعنی ایف بی آر کی تنظیم نو بھی شامل ہے۔

ٹیکس دینے پر سزا نہیں جزا کا تصور

ادھر معاشی ماہر خرم شہزاد کے خیال میں ٹیکس لگانے اور معیشت کو دستاویزی بنانے کے لیے سزا کے بجائے جزا دینے کا نظام اپنانے کی ضرورت ہے،

ان کے بقول اس کے لیے انعامات، مراعات، بہتر سروس ڈیلیوری کے ساتھ بنیادی سہولیات کی فراہمی کا راستہ اپنانے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے نشاندہی کی کہ شہریوں کی جانب سے حکومت پر اعتماد کی کمی کے باعث پائیدار وسائل پیدا کرنے میں رکاوٹیں آ رہی ہیں۔

انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ چین میں وہ لوگ جو ٹیکس نہیں دیتے انہیں وہ سہولیات نہیں دی جاتیں یا پھر انہیں زیادہ ادائیگی کرنی پڑتی ہے ان لوگوں کے مقابلے میں جو ٹیکس ریٹرنز باقاعدگی سے جمع کراتے ہیں۔

’ٹیکس نادہندگان کو ڈھونڈنا مشکل نہیں‘

خرم شہزاد کا کہنا ہے کہ پاکستان کا نیشنل ڈیٹا بیس رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) دنیا کے بہترین ڈیٹا بینکس میں سے ایک ہے اور اس کو استعمال کرتے ہوئے ٹیکس نادہندگان کو ڈھونڈنا مشکل نہیں۔

ان کے خیال میں سمز بند کرنے سے ٹیلی کام آپریٹرز کے خدشات پیدا ہوں گے۔ ان کی آمدنی پر اثر پڑ سکتا ہے۔ اس میں قانونی پیچیدگیاں بھی آڑے آسکتی ہیں۔ اس لیے اس کے بجائے دیگر آپشنز پر غور کیا جانا چاہیے۔

ان کے مطابق اسی طرح بینکنگ سیکٹر کو بھی اس بات پر قائل نہیں کیا جا سکا ہے کہ وہ اپنے کھاتیداروں کے اکاؤنٹس میں موجود رقوم کی تفصیلات ایف بی آر کے ساتھ شئیر کریں۔ اس کے لیے حکومت کو سوچ بچار کے ساتھ قانون سازی کرنی پڑے گی اور سزا کے بجائے لوگوں کو اس جانب راغب کرنے کے لیے مراعات دینی ہوں گی۔

ان کے بقول عوام کو یقین دلانا ہوگا کہ ان کے ٹیکس کے پیسے ان کی فلاح و بہبود پر خرچ کیے جائیں گے۔

محصولات بڑھانا حکومت کی ترجیح

دوسری جانب وفاقی وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے ایک بار پھر کہا ہے کہ پائیدار اقتصادی ترقی اور آگے بڑھنے کے لیے ٹیکس کلیکشن کو بڑھانا ان کی ترجیحی فہرست میں شامل ہے اور اس کے لیے حکومت ہر ممکن اقدامات کر رہی ہے۔

لاہور میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیرِ خزانہ نے کہا کہ گزشتہ چند ماہ میں حکومتی خسارہ کم ہوا ہے اور غیر ملکی زرِ مبادلہ کے ذخائر میں بھی اضافہ دیکھا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ روپیہ کسی حد تک مستحکم دکھائی دے رہا ہے اور مہنگائی جو 38 فی صد تک جا پہنچی تھی اس میں بھی مسلسل کمی آ رہی ہے۔

محمد اورنگزیب کے خیال میں ملک میں ٹیکس کے مروجہ قوانین پر سختی سے عمل درآمد کرانا ہوگا۔

ان کے مطابق ملک بھر میں پوائنٹ آف سیل سسٹم تین سال میں محض 9400 پی او ایس ہی لگائے جاسکے۔ ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم پر بھی عمل درآمد نہیں کیا جاسکا اور اسے ٹوبیکو کے بعد چینی، فرٹیلائزر اور سیمنٹ کے بعد دیگر سیکٹرز میں بھی نافذ کیا جانا تھا لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔

وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ انسانی مداخلت کے بغیر ڈیجیٹل نظام لانے سے محصولات میں بہتری اور شفافیت لائی جائے گی۔ اس کے لیے بین الاقوامی ادارے سے معاہدہ ہو گیا ہے۔

  • 16x9 Image

    محمد ثاقب

    محمد ثاقب 2007 سے صحافت سے منسلک ہیں اور 2017 سے وائس آف امریکہ کے کراچی میں رپورٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ کئی دیگر ٹی وی چینلز اور غیر ملکی میڈیا کے لیے بھی کام کرچکے ہیں۔ ان کی دلچسپی کے شعبے سیاست، معیشت اور معاشرتی تفرقات ہیں۔ محمد ثاقب وائس آف امریکہ کے لیے ایک ٹی وی شو کی میزبانی بھی کر چکے ہیں۔

XS
SM
MD
LG