رسائی کے لنکس

چینی کمپنیوں کو عراق میں تیل اور گیس کی تلاش کے ٹھیکوں کے حصول میں کامیابی


22 مارچ 2023 ، بصرہ، عراق کے شمال میں نہران بن عمر آئل فیلڈ کے قریب فوٹو۔ اے پی
22 مارچ 2023 ، بصرہ، عراق کے شمال میں نہران بن عمر آئل فیلڈ کے قریب فوٹو۔ اے پی
  • عراق میں 29 منصوبوں کے لیے تیل اور گیس کے لائسنس جاری کرنے کے لیے بولیاں دی جا رہی ہیں
  • ٹھیکوں کے حصول کی اس کوشش میں کوئی امریکی تیل کمپنی شامل نہیں تھی۔
  • تیل کی دولت سے مالا مال ہونے کے باوجود عراق کو توانائی کے شدید بحران کا سامنا ہے۔
  • لائسنس جاری کرنے کا بنیادی مقصد گیس کی پیداوار بڑھانا ہے جسے وہ اپنے بجلی گھروں کے لیے استعمال کرنا چاہتا ہے۔
  • عراق اپنے ریاستی اخراجات کے لیے زیادہ تر تیل کی آمدنی پر انحصار کرتا ہے۔

عراق کے وزیر تیل نے اتوار کو کہا کہ ان کے ملک میں تیل اور گیس کے ذخائر کی تلاش کا لائسنسنگ راؤنڈ، اتوار کو دوسرے دن بھی جاری رہا جس میں چینی کمپنیوں نے چار بولیاں جیت لی ہیں۔

عراق میں 29 منصوبوں کے لیے تیل اور گیس کے لائسنسوں کا مقصد بنیادی طور پر ملک کے اندر استعمال کے لیے ان کی پیداوار کو بڑھانا ہے۔ اس میں 20 سے زیادہ جو کمپنیاں پری کوالیفائی کر رہی ہیں، ان میں یورپی، چینی، عرب اور عراقی گروپ شامل ہیں۔

ان غیر ملکی کمپنیوں میں صرف چینی کمپنیوں نے ہفتے کے بعد سے تیل اور گیس کے 9 فیلڈز (کنوؤں) کی بولیاں جیتی ہیں، جب کہ عراقی کرد کمپنی کے اے آر گروپ نے دو ٹھیکے حاصل کیے ہیں۔

عراقی وزیر اعظم محمد شیعہ نے گزشتہ ماہ اپنے امریکہ کے سرکاری دورے پر امریکی کمپنیوں کے نمائندوں سے ملاقات کی تھی۔ اس کے باوجود بھی ٹھیکوں کے حصول کی اس کوشش میں کوئی امریکی تیل کمپنی شامل نہیں تھی۔

19اکتوبر 2017 کو کثیر النسل شمالی عراقی شہر کرکوک کے مغرب میں واقع بائی حسن آئل فیلڈ میں ایک کارکن ، پائپ لائنوں کی جانچ پڑتال کرتے ہوئے والو کو تبدیل کر رہا ہے۔ فوٹو اے ایف پی
19اکتوبر 2017 کو کثیر النسل شمالی عراقی شہر کرکوک کے مغرب میں واقع بائی حسن آئل فیلڈ میں ایک کارکن ، پائپ لائنوں کی جانچ پڑتال کرتے ہوئے والو کو تبدیل کر رہا ہے۔ فوٹو اے ایف پی

2003 میں عراق پر امریکی حملے اور صدام حسین کی حکومت کے خاتمے کے بعد، بہت سے غیر ملکی سرمایہ کار اس ملک کے وافر آئل فیلڈز اور معاہدوں کی طرف راغب ہوئے تھے۔ تاہم 2005 میں تیار کیے گئے عراق کے نئے آئین میں کہا گیا کہ ملک کی تیل کی دولت عراقی عوام کی ہے۔

عراق کی تیل کی آمدنی 2022 میں 115 ارب ڈالر سے تجاوز کر گئی ہے۔ کرونا کی وبا کے دوران قیمتیں گر جانے کے باعث تیل کی آمدنی میں ایک بڑی کمی کے بعد گزشتہ چار برسوں کے دوران آمدنی کی یہ بلند ترین سطح تھی۔

عراق اپنے ریاستی اخراجات کے لیے زیادہ تر تیل کی آمدنی پر انحصار کرتا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، 2019 میں عراق کی تیل کی آمدنی 78.5 ارب ڈالر تھی جو 2020 میں عالمی وبا کی وجہ سے کم ہو کر 42 ارب ڈالر رہ گئی۔ لیکن 2021 تک اس میں دوبارہ اضافہ ہونا شروع ہوا اور یہ بڑھ کر 75.6 ارب ڈالر تک پہنچ گئی۔

پڑوسی ملک ایران اپنی گیس اور بجلی کا ایک تہائی حصہ عراق کو فراہم کرتا ہے لیکن ترسیل کے ناقص نظام کے باعث اس میں اکثر رکاوٹیں آتی ہیں، اور لوڈ شیڈنگ کے پہلے سے موجود مسائل میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔

تیل کی دولت سے مالا مال ہونے کے باوجود عراق کو، جو چار کروڑ 20 لاکھ باشندوں کا وطن ہے، توانائی کے شدید بحران کا سامنا ہے۔ لوگوں کو بجلی کی مستقل کٹوتی اور لوڈ شیڈنگ کا سامنا رہتا ہے۔

لائسنس جاری کرنے کے عراق کے موجودہ راؤنڈ کا بنیادی مقصد گیس کی پیداوار کو بڑھانا ہے جسے وہ ایسے بجلی گھروں کے لیے استعمال کرنا چاہتا ہے جن کا بہت زیادہ انحصار ایران سے درآمد کی جانے والی گیس پر ہے۔

عراق کے شہر ںصریہ میں ایک بجلی گھر۔ فوٹو اے ایف پی
عراق کے شہر ںصریہ میں ایک بجلی گھر۔ فوٹو اے ایف پی

عراق کے وزیر تیل حیان عبدالغنی نے کہا کہ چین کی نیشنل آف شور آئل کارپوریشن (CNOOC) نے عراق میں تیل کی تلاش کے لیے اس کے کے ’بلاک 7‘ کی بولی جیت لی ہے جو ملک کے وسطی اور جنوبی صوبوں دیوانیہ، بابل، نجف، واسط اور متھنہ تک پھیلا ہوا ہے۔

وزیر تیل حیان عبدالغنیر نے کہا کہ انٹون آئل فیلڈ سروسز، زین ہوا سروسز اور سائنو پیک نے بالترتیب متھنہ میں ابو خیمہ آئل فیلڈ، وسیت میں دھفریہ فیلڈ اور متھنہ میں سمر فیلڈ میں تیل تلاش کرنے کے ٹھیکوں کے حصول میں کامیابی حاصل کی ہے۔

لائسنس جاری کرنے کے عراق کے اس چھٹے راؤنڈ کا بنیادی مقصد گیس کی پیداوار کو بڑھانا ہے جسے وہ ایسے بجلی گھروں کے لیے استعمال کرنا چاہتا ہے جن کا بہت زیادہ انحصار ایران سے درآمد کی جانے والی گیس پر ہے۔

تاہم گیس کی موجودگی کا امکان رکھنے والے کم از کم دو فیلڈز پر کوئی بولی نہیں لگائی گئی۔

عراق، سعودی عرب کے بعد اوپیک کا دوسرا سب سے بڑا تیل پیدا کرنے والا ملک ہے۔ تاہم اس کے تیل کے شعبے کی ترقی میں بار بار ہونے والے تنازعات اور سرمایہ کاروں کی ماحولیاتی، سماجی اور گورننس کے معیار پر توجہ مرکوز کرنے کی وجہ سے رکاوٹیں پیدا ہوئی ہیں۔

چین:مشرق وسطیٰ میں اقتصادی اور سیاسی اثر و رسوخ

چین مشرق وسطیٰ میں اپنے سیاسی اور اقتصادی رابطوں کو بڑھا رہا ہے۔ بیجنگ نے اس سال ایک معاہدے کی ثالثی کی جس کے تحت دیرینہ علاقائی حریف سعودی عرب اور شام کے حمایتی ایران کے درمیان تعلقات بحال ہوئے اور دونوں ایک دوسرے کے ملکوں میں اپنے سفارت خانے دوبارہ کھولنے پر رضامند ہو گئے۔

گزشتہ سال ستمبر میں شام کے صدر اسد نے چین کا دورہ کیا تھا۔ بیجنگ کی وزارت خارجہ نے کہا تھا کہ شام کے صدر اسد کے دورے کے نتیجے میں تعلقات ’’نئی سطح‘‘ پر پہنچیں گے۔ بیجنگ نے طویل عرصے سے دمشق کو سفارتی مدد فراہم کی ہے اور خاص طور پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں جس کا چین مستقل رکن ہے۔

ستمبر 22, 2023 کو چین کے صدر شی کے ساتھ شام کے صدر بشار الاسد۔
ستمبر 22, 2023 کو چین کے صدر شی کے ساتھ شام کے صدر بشار الاسد۔

تجزیہ کاروں کا کہنا تھاکہ اسد کا دورہ بین الاقوامی برادری میں واپسی کی جانب ایک اہم قدم کی نمائندگی کرتا ہے۔ شام کو امریکہ کی قیادت میں برسوں سے تنہائی کا سامنا رہا ہے۔

اسی طرح سعودی عرب میں مئی میں ہونے والے ایک سربراہی اجلاس میں شام کی عرب ممالک میں واپسی ہوئی اور شام کے لیے ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے مسلسل رہنے والی علاقائی تنہائی کا خاتمہ ہوا۔

اقتصادی مسابقت

گزشتہ برس بھارت میں منعقد گروپ آف 20 سربراہی اجلاس میں اعلان کیے جانے والے، انڈیا،مڈل ایسٹ، یورپ اکنامک کوریڈور یا IMEC، کو جدید دور کے "اسپائس روٹ" اور چین کے "بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو" کے متبادل کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اسے امریکہ، یورپی یونین اور سعودی عرب کی حمایت حاصل ہے۔

مغربی حمایت یافتہ راہداری کا تصور محض تجارتی راستے کے طور پر نہیں کیا گیا تھا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اس کے جیو پولیٹیکل مقاصد تھے۔

اسے چین کے مقابلے کے طور پر دیکھا گیا، جس کا مشرق وسطیٰ میں اثر و رسوخ بڑھ رہا ہے۔ کوگل مین کے مطابق اس کا مقصد اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے اعتماد اور سیاسی سرمایہ پیدا کرنا تھا۔

اس رپورٹ کے لیے کچھ معلومات رائٹرز اور اے پی سے لی گئی ہیں۔

فورم

XS
SM
MD
LG