رسائی کے لنکس

حج کی ادائیگی جذباتی تجربہ ہے لیکن ضروری سامان ساتھ رکھنا مت بھولیں!


صومالی حجاج ، تصویر اے پی
صومالی حجاج ، تصویر اے پی

سعودی عرب کے شہر مکہ میں پیر کے دن سے مناسک حج کی ادائیگی شروع کردی گئی ہے۔ کووڈ کی وباء کے دوران فریضہ حج ادائیگی کے لئے آنے والوں کی تعداد پر پابندی کے سبب بہت سے لوگ اس فریضے کی ادائیگی سے محروم رہے، لیکن اب جب کہ اس قسم کی کوئی پابندی نہیں ہے، لوگوں نے بڑی تعداد میں اس مذہبی فریضے کی ادائیگی کے لئےسعودی عرب کا سفر اختیار کیا ہے ۔

اب تک ایک اعشاریہ آٹھ ملین یعنی اٹھارہ لاکھ افراد دنیا بھر سے مکہ شہر پہنچ چکے ہیں۔ سعودی عرب کی حج کی وزارت کے ترجمان ایاز الغوینم کا کہنا ہے کہ ابھی سعودی عرب کے اندر سے مزید حجاج مکہ پہنچ رہے ہیں اور امید ہے کہ اس سال حاجیوں کی تعداد بیس لاکھ سے زائد تک پہنچ جائے گی، جو کوویڈ سے قبل کی تعداد کے برابر ہے۔

حج کی ادائیگی مسلمانوں کے لئے ایک بےحد جذباتی تجربہ ہے ۔

ایک مصری تاجر یحی الغنم نےرندھی ہوئی آواز میں کہاا کہ انہیں یہ بتانے کے لئے الفاظ ہی نہیں مل رہے کہ منی پہنچ کر ان کے کیا جذبات ہیں۔

'میری آنکھوں سےخوشی اور تشکر کے آنسو نکل پڑے، میں سو نہیں پا رہا، مجھے پندرہ دن سے نیند ہی نہیں آرہی، بمشکل ایک گھنٹہ سوتا ہوں '

منی مکہ سے باہر خیموں کا وہ وسیع شہر ہے، جس کی حدود کے برابر دنیا کا کوئی اور عارضی شہر اب تک نہیں پہنچ سکا ہے۔ حج کے ایام میں حجاج کا زیادہ تر قیام اسی خیمہ بستی میں ہوتا ہے۔

دھوپ میں مناسک حج کی ادائیگی کے لئے ضروری سامان ساتھ رکھیں

حج کی ادائیگی کا تجربہ روحانی کے ساتھ ساتھ جسمانی طور پر بےحد تھکا دینے والا ہوتا ہے۔ حجاج کو صحرا کی چلچلاتی دھوپ میں گھنٹوں پیدل چلنا پڑتا ہے۔ اس لئے لوگ ایک دوسرے کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ سر ڈھکنے کے لئے ہیٹ، پانی کی بوتل لٹکانے والا کراس باڈی بیگ اور ایسی کرسیاں ساتھ لائیں جنہیں تہہ کیا جا سکے۔

گھنٹوں دھوپ میں کھڑا رہنے اور لوگوں کے بڑے ہجوم کے درمیان پیدل ایک ہی منزل کی طرف چلتے چلے جانے کا تجربہ بھی آسان نہیں۔ اگر آپ کو جگہ جگہ رکاوٹیں ملیں تو سمجھ لیجئے کہ اگر آپ نے اپنا مطلوبہ موڑ نہ مڑا تو آپ کو ایک لمبا چکر لگا کر اپنی مطلوبہ جگہ پر پہنچنا ہوگا۔

پیر کو یہاں آ ٓنے والے لاکھوں افراد یہاں صرف حج کی ادائیگی کا درست طریقہ راستے میں جگہ جگہ لگے رہنما تختیوں سے ہی نہیں سمجھ رہے ، بلکہ اپنے ان ساتھی حاجیوں سے بھی بہت کچھ سیکھ رہے ہیں ، جو ادائیگی حج کے لئے ایک سے زیادہ مرتبہ مکہ آچکے ہیں۔

سعودی عرب میں دن کے اوقات میں درجہ حرارت چالیس ڈگری سیلسئیس تک پہنچ جاتا ہے، اور حج کے زیادہ تر مناسک ریت میں تپتی دھوپ میں ادا کئے جاتے ہیں، اس لئے حاجیوں کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ دھوپ سے بچنے کے لئے ٹوپی، ہیٹ یا کسی اور سر ڈھانپنے والے کپڑے کا استعمال کریں۔ حاجی عموما سٹرا ہیٹ اور کاو بوائےہیٹس بھی پہنے دکھائی دیتے ہیں ۔ جا بجا رنگ برنگی چھتریاں دکھائی دیتی ہیں۔ کئی لوگ اپنی جائے نماز سے بھی سر ڈھانپتے دیکھے جا سکتے ہیں۔

امیر اور غریب برابر ہیں، یہ برابری دکھانے کے لئے مرد حجاج سفید احرام میں ملبوس ہوتے ہیں اور خواتین کو آرائیش حسن کے لوازمات سے بچنے کی ہدایت ہے لیکن خواتین سر ڈھانپ کر اپنے مختلف ملکوں کے روایتی لباس میں بھی ملبوس نظر آتی ہیں۔

طبی ماہرین مشورہ دیتے ہیں کہ حجاج اپنے پاوں میں انتہائی آرام دہ جوتا پہنیں جو لمبے فاصلے تک پیدل چلنے میں ان کے لئے دقت کا سبب نہ بنے۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ سینڈلز پہننے میں کوئی مضائقہ نہیں لیکن جرابیں بہن لی جائیں تو خانہ کعبہ کے گردا سات بار طواف کے دوران فرش ٹھنڈا محسوس نہیں ہوتا۔

اکرام محمد مکہ کی ایک سپر مارکیٹ میں کیمپنگ کا ضروری سامان ، جیسے ہلکے وزن کے خیمے، سلیپنگ میٹ اور پانی کی بوتلیں فروخت کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ زیادہ تر حاجی ڈرائی فروٹ، خشک میوے ، بسکٹ اور چپس خریدتے ہیں، تاکہ پیدل چلتے ہوئے ضروری سامان ساتھ ہو، جسے فریج میں رکھنے کی ضرورت نہ رہے۔

ان کے سٹور کا ایک سپیشل سیکشن خوشبو سے پاک صابن ، ٹوتھ پیسٹ اور لوشنز کا ہے محمد ،حجاج کرام کو یادگاری سووینئیرز بھی فروخت کرتے ہیں۔ ان کے سٹور پر چاکلیٹ سے مٹھائیوں اور آب زم زم تک سب کچھ موجود ہیں۔ایک چیز جو ان کے بقول، حاجی سب سے زیادہ خریدتے ہیں وہ ہے دُکھتے جوڑوں پر لگانے کے لئے درد دور کرنے والی کریم۔

میدان عرفات میں انتظامات

لاکھوں حاجیوں نے اپنے اس فریضے کی ادائیگی اسلام کے مقدس ترین مقام یعنی خانہ کعبہ کے طواف سے شروع کی۔ اہرام باندھے اور تلبیہ پڑھتے ہوئے وہ میدان عرفات کی جانب روانہ ہوئے۔ جہاں ایک دن اور رات وہ خیموں میں بسر کریں گے اور یہ وقت عبادت میں گزاریں گے۔ جس کے بعد وہ مزدلفہ جائیں گے ۔

دنیا کے بہت بڑے اجتماعات میں سے یہ ایک بہت بڑا اجتماع اسلام کے ان پانچ ارکان میں سے ہے۔ جنہیں اسلام کے پانچ ستون کہا جاتا ہے۔ اور یہ عبادت ہر اس مسلمان کے لئے جس کی جسمانی اور مالی حالت اس کی متحمل ہو سکے، زندگی میں ایک بار ضروری ہے۔

حضرت ابراہیم علیہ، ان کے بیٹےحضرت اسماعیل علیہ اور حضرت اسماعیل علیہ کی والدہ بی بی حاجرہ کی سنتیں حج کے دوران ادا کی جاتی ہیں۔ عرفات ایک بے آب و گیاہ صحرا ہے جہاں جھلسا دینے والی گرمی اور شدید تپش بھی لوگوں کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن پاتی۔ تاہم وہاں سپاہی، حاجیوں کو کسی حد تک ٹھنڈا رکھنے کے لئے ان پر پانی کا چھڑکاؤ کرتے رہتے ہیں۔

عرفات کے میدان میں ٹھیرنے اور ماؤنٹ عرفات پر دعاؤں کے بعد جہاں پیغمبر اسلام نے اپنا آخری خطبہ دیا تھا یہ حاجی مزدلفہ جائیں گے جہاں سے وہ منی میں شیطان کو مارنے کے لئے کنکریاں جمع کریں گے۔ذولحجہ کی نو تاریخ تک ان ارکان کی ادائیگی کےبعد دس ذولحجہ کو عید ہو گی اور حضرت ابراہیم علیہ اور حضرت اسماعیل علیہ کی قربانی کی سنت ادا کرتے ہوئے جانوروں کی قربانی کی جائے گی جس کا گوشت غریبوں اور ناداروں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ اور یوں حج کا موسم اپنے اختتام کو پہنچے گا۔

(اس مضمون کا کچھ مواد اے پی سے لیا گیا ہے)

XS
SM
MD
LG