رسائی کے لنکس

بھارتی عازمینِ حج کا سعودی عرب میں ناقص انتظامات کا شکوہ


بھارت کے متعدد عازمینِ حج اور خادم الحجاج تنظیموں نے رواں سال حکومت کی جانب سے کیے جانے والے حج انتظامات پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے۔

عازمین نے وزارتِ اقلیتی امور اور انڈین حج مشن جدہ سے اپیل کی ہے کہ سعودی عرب جانے والے عازمین کو پیش آنے والی مبینہ دشواریوں کو دور کرنے کی کوشش کی جائے تاکہ عازمین اطمینان کے ساتھ حج کے فرائض ادا کر سکیں۔ یاد رہے کہ رواں سال بھارت کا حجاج کا کوٹہ ایک لاکھ 75 ہزار ہے۔

مرکزی حج کمیٹی جس کا صدر دفتر ممبئی میں ہے، حج کے امور کے سلسلے میں ایک نوڈل ایجنسی کے طور پر کام کرتی ہے جب کہ متعدد ریاستوں میں اس کی شاخیں ہیں۔ پہلے حج کے امور وزارتِ خارجہ کے تحت آتے تھے لیکن مودی حکومت نے 2016 میں اسے وزارتِ اقلیتی امور کے تحت کر دیا ہے۔

نجی خادم الحجاج تنظیموں کا الزام ہے کہ رواں سال بھارت سے سعودی عرب جانے والے عازمین کو بہت زیادہ مسائل کا سامنا ہے۔

یہ مسائل خاص طور پر رہائش سے متعلق ہیں۔ متعدد عازمین، جو کہ مکہ اور مدینہ پہنچ چکے ہیں، اپنی پریشانیوں کی ویڈیوز بنا کر اپنے اہلِ خانہ اور اخبارات کے دفاتر کو ارسال کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ یہاں ہم بے یار و مددگار پڑے ہیں کوئی پرسان حال نہیں۔ ان میں سے کئی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ مدینہ کے ہوٹلوں اور مکہ کے عزیزیہ کی عمارتوں میں جہاں حجاج قیام کرتے ہیں، کمروں میں گنجائش سے زیادہ افراد کو رکھا گیا ہے۔

یاد رہے کہ مسجد الحرام سے آٹھ کلو میٹر دور عزیزیہ نامی مقام پر حجاج کے لیے درجنوں عمارتیں تعمیر کی گئی ہیں۔حجاج کی اکثریت انہی میں قیام کرتی ہے۔ وہ نقل و حمل کی دشواری کی بھی شکایت کرتے ہیں۔

دہلی کے متعدد عازمین کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان کی پروازیں آخر وقت میں ڈائیورٹ کر دی گئیں۔ انہیں بتایا گیا تھا کہ پہلے انہیں مدینہ لے جایا جائے گا لیکن انہیں مکہ لے جایا گیا۔


دہلی حج کمیٹی کے چیف ایگزیکٹو آفیسر (سی ای او) محمد اشفاق عارفی نے رہائشی عمارتوں کی کمی کا اعتراف کیا لیکن یہ بھی کہا کہ اس بارے میں وزارتِ اقلیتی امور اور انڈین حج مشن کے اہل کا رہی وضاحت کر سکتے ہیں۔

واضح رہے کہ رہائشی عمارتوں کے حصول کے لیے سہ مرحلہ جاتی نظام کام کرتا ہے۔ پہلے مرکزی حج کمیٹی اور ریاستی حج کمیٹیوں کے اہلکاروں پر مشتمل بلڈنگ سلیکشن ٹیم (بی ایس ٹی) مکہ اور مدینہ جاتی ہے پھر بلڈنگ سلیکشن کمیٹی (بی ایس سی) جاتی ہے اور آخر میں ان دونوں کمیٹیوں کی نشان زد کی گئی عمارتوں کے حصول کے بارے میں قونصل جنرل آف انڈیا کی ٹیم فیصلہ کرتی ہے۔

اشفاق عارفی کے مطابق جانے کیوں اس بار اس نظام کو اختیار نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے رہائشی دشواریاں پیش آرہی ہیں۔

دہلی سے جانے والی بعض پروازوں کو آخر وقت میں ڈائیورٹ کر دیے جانے کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ بعض ممکنہ مسائل کی وجہ سے آٹھ پروازوں کو جو کہ مدینہ جانے والی تھیں جدہ روانہ کیا گیا لیکن دو روز قبل تمام عازمین کو اس کی اطلاع دے دی گئی تھی۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ دہلی حج کمیٹی نے اپنے طور پر احرام اور چپلیں بھی خرید لی تھیں اور جن کا احرام لگیج میں جا چکا تھا انہیں ایئر پورٹ پر احرام دیے گئے۔

حکومت کی جانب سے ہر سال خادم الحجاج بھیجے جاتے ہیں جو سرکاری ملازمین کے ایڈمنسٹریٹیو اسٹاف سے منتخب کیے جاتے ہیں اور جن کا کام ان کے تحت دی گئی عمارتوں کے حجاج کے چھوٹے موٹے مسائل کو حل کرنا ہوتا ہے۔ لیکن رواں سال حکومت نے مسلح افواج کے اہلکاروں کو خادم الحجاج کی حیثیت سے بھیجا ہے۔ عازمین کے مطابق ان سے انہیں کوئی تعاون نہیں مل رہا ہے۔

اقلیتی امور کی وزیر اسمرتی ایرانی نے سات فروری کو پارلیمان میں ایک سوال کے جواب میں بتایا تھا کہ حکومت نے رواں سال حج کے اخراجات میں 50 ہزار کی تخفیف کر دی ہے۔

لیکن عازمین کا کہنا ہے کہ یہ صرف ایک پروپیگنڈا ہے۔ اس سے قبل عازمین کو سعودی عرب میں اخراجات کے لیے ایئر پورٹ پر 2100 ریال دیے جاتے تھے جو موجودہ بھارتی کرنسی میں تقریباً 50 ہزار روپے بنتے ہیں۔

عازمین کو اس کے مساوی رقم پہلے حج کمیٹی میں جمع کرانی ہوتی تھی۔ حکومت نے رواں سال وہ رقم نہیں لی لیکن 2100 ریال بھی نہیں دیے۔ عازمین کو خود ریال کا انتظام کرنا پڑ رہا ہے۔

عازمین کا کہنا ہے کہ رواں سال حج کے اخراجات گزشتہ برسوں کے مقابلے میں دگنے سے بھی زیادہ ہیں۔ اس سلسلے میں حج کمیٹی کے اہلکاروں کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کی حکومت نے اس بار حجاج پر ’گڈز اینڈ سروسز ٹیکس‘ (جی ایس ٹی) نافذ کر دیا اور ایئرلائنز نے ٹکٹ مہنگے کر دیے جس کی وجہ سے اخراجات میں اضافہ ہوا۔


’انجمن فلاح حجاج دہلی‘ کے صدر حاجی محمد ظہور کا کہنا ہے کہ اس سے قبل نجی تنظیموں کے رضاکاروں کو ایئر پورٹ پر جا کر حجاج کی خدمت کرنے کی اجازت تھی لیکن اس بار حکومت نے ان تنظیموں پر پابندی عائد کر دی۔ اس وجہ سے بھی مسائل میں اضافہ ہوا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انھوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ مرکزی حج کمیٹی کا صدر دفتر ممبئی سے دہلی منتقل کیا جائے تاکہ اس کے کاموں میں شفافیت آسکے۔

دریں اثنا سعودی عرب کے شہر ریاض میں بھارتی سفارت خانے کا کہنا ہے کہ انڈین حج مشن عازمین کو سہولتیں فراہم کرنے کے لیے مسلسل چوبیس گھنٹے کام کر رہا ہے۔ سعودی عرب میں بھارت کے سفیر ڈاکٹر سہیل اعجاز خان نے سات جون کو مکہ کا دورہ کرکے عازمین سے ملاقات کی، ان کے مسائل سنے اور نقل و حمل کی سہولتوں کا جائزہ لیا۔

ایک سرکاری حج ٹرینر نے نام راز میں رکھنے کی شرط پر بتایا کہ حجاج کی اکثریت نچلے طبقے کی ہوتی ہے جو سعودی عرب کے ہوٹلوں اور عمارتوں کے ضابطوں سے ناواقف ہوتی ہے۔ اس وجہ سے بھی ان کو مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ بہت سے حاجی معمولی پریشانی کو بھی بہت بڑی بنا کر پیش کرتے ہیں۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG