رسائی کے لنکس

کیا ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات پی ٹی آئی حکومت کی غلطی تھی؟


 فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت کے دوران کالعدم تحریکِ طالبان (ٹی ٹی پی) کے ساتھ مذاکرات کا معاملہ ان دنوں پاکستان میں موضوعِ بحث ہے۔ بعض حلقوں کا یہ کہنا ہے کہ یہ گزشتہ حکومت کی غلط پالیسی تھی جس سے شدت پسند گروپ کو منظم ہونے کا موقع ملا جب کہ پی ٹی آئی رہنما اب بھی اس پالیسی کا دفاع کر رہے ہیں۔

منگل کو پاکستان تحریکِ انصاف کے زیرِ اہتمام ہونے والی سیکیورٹی کانفرنس میں سابق وزیرِ اعظم عمران خان نے ان الزامات کو رد کرتے ہوئے کہا کہ ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کا فیصلہ صرف اُن کا نہیں بلکہ تمام اسٹیک ہولڈرز کا تھا۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ فوجی آپریشن کسی مسئلے کا حل نہیں ہے بلکہ بات چیت کے ذریعے ہی مسائل حل کیے جا سکتے ہیں۔سابق وزیرِ اعظم نے خبردار کیا تھا کہ اگر دہشت گردی کے خلاف پاکستان نے اپنی جنگ شروع کی تو پھر یہ چلتی جائے گی۔

سیمینار سے خطاب کے دوران وزیرِ اعلٰی خیبرپختونخوا نے بھی کہا کہ سلامتی سے متعلق اہم اجلاسوں میں اُنہیں مدعو نہیں کیا جاتا۔ حالاں کہ اُن کا صوبہ شدت پسندی سے سب سے زیادہ متاثر ہے۔

انہوں نے حکمران اتحاد کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ شدت پسندی کی یہ آگ صرف خیبر پختوںخوا اور سابق قبائلی علاقوں تک ہی محدود نہیں رہے گی بلکہ یہ پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے گی۔ اس لیے تمام اسٹیک ہولڈرز کو دہشت گردی کو شکست دینے کے لیے مل کر ایک جامع حکمتِ عملی مرتب کرنا ہو گی۔

خیال رہے کہ وفاقی حکومت کے وزرا تحریکِ انصاف پر یہ تنقید کرتے رہے ہیں کہ ملک میں دہشت گردی کے خلاف حکومت کے ساتھ مل بیٹھنے کے بجائے سابق وزیرِ اعظم عمران خان ریاستی اداروں پرصرف نکتہ چینی کرتے ہیں۔

وزرا کا یہ بھی مؤقف رہا ہے کہ خیبرپختونخوا کے وزیرِ اعلٰی اپنے صوبے میں سیکیورٹی صورتِ حال پر توجہ دینے کے بجائے لاہور میں عمران خان کی رہائش گاہ میں زیادہ نظر آتے ہیں۔

'ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی سے افغانستان سے تعلقات خراب ہو سکتے ہیں'

اسلام آباد میں فاٹا ریسرچ سینٹر کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر منصور خان محسود کہتے ہیں کہ ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کو افغان باشندوں کی حمایت حاصل ہے اورپاکستان میں ہونے والے حالیہ بعض حملوں میں افغان باشندوں کے ملوث ہونے کی اطلاعات بھی ہیں۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے منصور خان نے کہا کہ اگر ٹی ٹی پی کے خلاف افغانستان میں کسی بھی قسم کی کارروائی کی گئی تو اس سے دونوں ملکوں کے تعلقات خراب ہوسکتے ہیں اور یہ صورتِ حال پاکستان کی مشکلات میں اضافے کا سبب بنے گی۔

ان کے بقول، "افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام کے بعد سے پاکستان میں ٹی ٹی پی اور بلوچ شدت پسندوں کی کارروائیوں میں تیزی آ گئی ہےاور اس ضمن میں حکومتِ پاکستان نے متعدد بار افغان طالبان سے بات کی ہے لیکن اس کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکلا۔"

سیکیورٹی امور کے ماہرین کے مطابق ایک ایسے وقت میں جب افغان طالبان کی حکومت کو عالمی سطح پر کسی ملک نے تسلیم نہیں کیا، پاکستان کو ہمسایہ ملک ہونے کے ناطے طالبان کے ساتھ اچھے تعلقات استوار رکھنے چاہئیں۔

انسٹی ٹیوٹ آٖف پالیسی اسٹیڈیز سے منسلک دفاعی تجزیہ کار بریگیڈیئر (ر) سید نذیر کہتے ہیں کہ سابق وزیرِ اعظم عمران خان کا یہ دعویٰ درست ہے کہ ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کے معاملے پر ریاستی ادارے آن بورڈ تھے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ اس وقت کابل میں پاکستانی سفیر مذاکرات میں پیش پیش تھے اور معاملے کو پارلیمنٹ میں بھی زیرِ بحث لایا گیا تھا۔

اُن کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے پاکستان میں کامیابی کا کریڈٹ لینے تو ہر کوئی آ جاتا ہےلیکن ناکامی کی صورت میں تمام ادارے پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔

سید نذیر کے مطابق اس وقت اگر دیکھا جائے تو کالعدم تحریک ٹی ٹی پی کی زیادہ تر کارروائیاں سرحدی علاقوں میں سیکیورٹی فورسز کے خلاف ہیں اور عام لوگ اس کا نشانہ نہیں ہیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ ماضی کے برعکس شدت پسندوں کے پاکستان میں مستقل اور منظم ٹھکانے موجود ہیں۔ اس لیے وہ نہیں سمجھتے کہ ایسے میں کوئی بڑی کارروائی کی جائے گی۔

اُن کا کہنا تھا کہ یہ ہو سکتا ہے کہ انٹیلی جنس کی بنیادوں پر ملک کے مختلف علاقوں میں کارروائیاں ہو ں ،جو نیشنل ایکشن پلان کا حصہ ہے۔

XS
SM
MD
LG