رسائی کے لنکس

کیا ترکی شام میں کردوں کے خلاف حملہ کر سکتا ہے؟


تہران نیں ترکی، ایران اور روس کے صدور
تہران نیں ترکی، ایران اور روس کے صدور

بیروت سے خبر رساں ادارے اے ایف پی نے اطلاع دی ہے کہ ترکی نے شام کے کردوں کے خلاف فوجی کارروائی کی اپنی دھمکی کی دوہرایاہے۔ لیکن وہ روس اور ایران کی اس بارے میں رضا مندی کے حصول کے بغیر کیا کر سکتا ہے؟۔ شمالی شام میں من بیج اور طلرفعت میں کردوں کے خلاف کارروائی کے منصوبوں کے اعلان کے بعد ترک صدر اردوان نے حمایت کی امید پر اس ہفتے تہران میں ایک سہ فریقی سربراہ کانفرنس میں شرکت کی تھی۔

شام کے تنازعے میں ایران اور روس، تجزیہ کاروں کے مطابق اہم کھلاڑی ہیں اور حکومت وقت کے حامی ہیں اور اس حوالے سے انہوں نے ترکی کے اعلان کی حمایت نہیں کی۔ تاہم تجزیہ کار وں کے مطابق ترکی نے جمعرات کے روز دوہرایا کہ شام میں ایک نئی کارروائی کے لئے اسے کسی کی اجازت کی ضرورت نہیں ہے

کیا اردوان کو اس سلسلے میں کوئی مثبت اشارہ ملا ہے؟

تہران میں بھی اردوان نے ان کرد فورسز کے خلاف اپنی دھمکیاں دہرائیں جو شمال مشرقی شام میں بعض حصوں کو کنٹرول کرتے ہیں اور جنہیں انقرہ دہشت گرد قرار دیتا ہے۔ تہران سربراہ میٹنگ کے اعلامیے میں شمالی شام میں دہشت گردوں اور دہشت گرد گروپوں کو ختم کرنے میں تعاون اور علیحدگی پسندی کے عزائم کی مخالفت کی گئی۔

تاہم ان ملکوں کے اعلامیے میں جو شام کی جنگ میں عرصے سے تنازعے کی حریف قوتوں کی حمایت کرتے چلے آرہے ہیں۔ بظاہر یہ بات نظرانداز ہوئی کہ دہشت گرد کس کو قرار دیا جائے۔

شام کی ایک جیل میں موجود کرد قیدی
شام کی ایک جیل میں موجود کرد قیدی

ماسکو اور واشنگٹن بار بار نیٹو کے رکن ترکی کو شمالی شام میں کردوں کے خلاف کوئی نیا حملہ نہ کرنے کے لئے خبردار کر چکے ہیں۔ اور تہران میں سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامناای اردوان کو خبردار کر چکے ہیں کہ حملہ نقصان دہ ہو گا۔

انٹرنیشنل کرائیسز گروپ کی محقق دارین خلیفہ کا کہنا ہے سربراہ اجلاس میں اردوان کو حملے کی اجازت نہیں دی گئی ۔ لیکن ترکی اسکے بغیر ہی بار بار شام کے اندر فوجی کاررو ائیوں کی دھمکی دیتا رہا ہے۔

ترک وزیر خارجہ نے جمعرات کے روز کہا کہ ترکی نے شام میں اپنی مہم کے لئے کبھی اجازت نہیں مانگی۔

لیکن ماسکو اور تہران کی منظوری کے بغیر اردوان صرف ایک محدود نوعیت کا حملہ کر سکتے ہیں۔ترک ذرائع ابلاغ نے اطلاع دی ہے کہ کوئی بھی حملہ اگست کے اختتام اور ستمبر کے اوائل سے پہلے نہیں ہو سکتا۔ کرد عہدیدار کہہ چکے ہیں کہ وہ ترکی کے ممکنہ حملے سے نمٹنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ شا می فوج نے ان علاقوں میں تازہ کمک بھیج دی ہے جن پر ترکی کے حملے کا خطرہ ہے۔دمشق یونیورسٹی کے ابو عبداللہ اس علاقے میں مزید شامی فوج بھیجے جانے کی توقع کر رہے ہیں۔

کرد فورسز اور شامی حکومت نے کسی مصالحت تک پہنچنے کی کوشش کی ہے کیونکہ کرد وہ علاقہ دینا نہیں چاہتے جو انہوں نے حاصل کیا ہے۔ جبکہ دمشق ان کی خود اختیاری کو مسترد کرتا ہے۔

تجزیہ کار دارین خلیفہ کہتی ہیں کہ انہیں اس بارے میں شبہ ہے کہ دونوں ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھیں گے۔

لیکن اگر ترکی نے حملہ کیا تو اسکے نتیجے میں کردوں اور شام کے درمیان مزید دفاعی تعلق پیدا ہو سکتا ہے ۔ لیکن اس کے سبب ان کے درمیان کوئی وسیع معاہدہ یا سمجھوتہ ممکن نظر نہیں آتا۔

(خبر کا مواد اے ایف پی سے لیا گیا ہے)

XS
SM
MD
LG