روسی صدر ولادی میر پوٹن منگل کے روز اچانک شام پہنچے، جہاں انہوں نے دارالحکومت دمشق میں شام کے صدر بشار الاسد سے ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد کی صورت حال کے بارے میں تبادلہ خیال کیا۔
یہ دورہ اس لیے خصوصی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ یہ امریکہ اور ایران کے درمیان حالیہ محاذ آرائی کے تناظر میں خطے میں پیدا ہونے والی کشیدگی کے موقع پر ہوا ہے۔ شام کے صدر بشار الاسد ایران کے قریبی فوجی حلیف تصور کیے جاتے ہیں۔
امریکہ کی طرف سے ڈرون کے ذریعے ہلاک ہونے والے ایرانی جنرل قاسم سلیمانی مشرق وسطیٰ میں ایران کی فوجی کارروائیوں کے دوران شام کی خانہ جنگی میں بھی کلیدی کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ وہ جمعے کے روز شام سے عراق میں داخل ہوتے ہی بغداد ایئرپورٹ پر امریکی ڈرون حملے میں مارے گئے۔
شام میں 9 برس قبل صدر بشار الاسد کی حکومت کا تختہ الٹنے کی غرض سے خانہ جنگی کا آغاز ہوا تھا۔ تاہم، ایران اور روس کی فوجی مدد کے باعث بشار الاسد باغیوں سے تمام تر علاقہ واپس لینے میں کامیاب ہو گئے تھے۔
شام کی سرکاری نیوز ایجنسی، ثنا نے ایک تصویر شائع کی ہے جس میں صدر پوٹن شام کے صدر بشار الاسد کے ساتھ ہاتھ ملاتے ہوئے مسکرا رہے ہیں۔ نیوز ایجنسی کے مطابق، دونوں صدور نے شام میں روسی فوجوں کے سربراہ کی طرف سے ایک فوجی پریزنٹیشن بھی دیکھی۔
ایران امریکہ کشیدگی کے علاوہ دونوں رہنماؤں نے ادلب کے علاقے میں دہشت گردی کے خاتمے سے متعلق منصوبے کے بارے میں بھی تبادلہ خیال کیا۔ ادلب باغیوں کے قبضے میں رہ جانے والا آخری علاقہ ہے۔
روسی صدر پوٹن نے شام کے صدر بشار الاسد کے ہمراہ دمشق کے پرانے علاقے کا بھی دورہ کیا اور وہاں آٹھویں صدی کے امیہ دور کی مسجد اور قدیمی گرجا گھر دیکھا۔
شامی امور کے ماہر ڈیوڈ لیش کا کہنا ہے کہ ان کے خیال میں روسی صدر کے دورے کا مقصد خطے میں پیدا ہونے والی کشیدگی کے دوران شام میں روسی پوزیشن کو مضبوط بنانا تھا۔
شام کے دورے کے بعد روسی صدر پوٹن ترکی جائیں گے جہاں وہ بدھ کے روز ترکی کے صدر رجب طیب اردوان سے ملاقات کریں گے۔
ترکی نے چند ہفتے قبل شام کے شمالی علاقے میں اپنی فوجیں فوجیں بھجوائی تھیں، جہاں وہ امریکہ کی حمایت یافتہ کرد فوجوں کے خلاف کارروائی میں مصروف ہیں۔