پاکستان کی حکومت کا کہنا ہے کہ اس نے رواں سال 12 ارب ڈالر سے زائد کے غیر ملکی قرض کی ادائیگی کی ہے اور پانچ برس میں لگ بھگ 55 ارب ڈالر قرض واپس کیے جائیں گے۔
حکومت کی جانب سے قرض کی ادائیگیوں کے باوجود غیر ملکی قرض میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
وزارتِ اقتصادی امور کے جاری حالیہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت کا جولائی 2018 سے اب تک لیا گیا مجموعی قرض تقریباً 40 ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔
اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ ملک کا مجموعی قرض 127 ارب ڈالر کی بلند ترین سطح تک پہنچ گیا ہے جس میں موجودہ حکومت نے لگ بھگ 27 ارب ڈالر کا اضافہ کیا ہے۔
حکومت کا کہنا ہے کہ اس نے یہ قرض پرانے قرضوں کی ادائیگی کے لیے حاصل کیا۔ البتہ معاشی ماہرین کے مطابق حکومت نے بیرونی ادائیگیوں کے علاوہ مالیاتی خسارے کو کم کرنے کے لیے بھی غیر ملکی قرض کا استعمال کیا ہے۔
وفاقی وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری کے مطابق صرف رواں سال 12 ارب 27 کروڑ ڈالر غیر ملکی قرض ادا کیا گیا ہے اور مالی سال 23 میں ساڑھے 12 ارب ڈالر ادا کیے جائیں گے۔
ان کے بقول پی ٹی آئی پانچ برسوں میں لگ بھگ 55 ارب ڈالر کی ادائیگی کرے گی جب کہ مسلم لیگ (ن) نے پانچ برسوں میں 27 ارب ڈالر ادا کیے تھے۔
البتہ ماہرین نے غیر ملکی قرض میں تیزی سے اضافے پر خدشہ ظاہر کیا ہے کہ یہ صورتِ حال ملک کی قرض واپسی کی صلاحیت کو متاثر کرسکتی ہے۔
ماہر معیشت ڈاکٹر حفیظ پاشا کہتے ہیں کہ قرض میں یہ اضافہ، اس کی واپسی کی مقدار میں بھی اضافہ کر رہا ہے۔ ان کے بقول پانچ سال قبل قرض کی سالانہ واپسی چار ارب ڈالر تھی جو اب بڑھ کر 13 ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ مالیاتی خسارہ اور قرضوں کی واپسی کے لیے پاکستان کو سالانہ 26 ارب ڈالر کے نئے قرض حاصل کرنا ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ قرضوں کی واپسی کا مسئلہ بہت سنگین ہوتا جا رہا ہے۔
دوسری جانب سابق وزیرِ خزانہ اشفاق حسن کہتے ہیں کہ حکومت کی نئے قرض لے کر پرانے قرضوں کی ادائیگی کی حکمتِ عملی تو نظر آتی ہے۔ البتہ قرضوں میں کمی کی جانب کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی ہے بلکہ حکومت نے ابھی تک 27 ارب ڈالر قرض کا اضافہ کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ قرض لے کر پرانے قرض کی ادائیگی گزشتہ کئی حکومتوں سے چلی آ رہی ہے۔ لیکن اب یہ صورتِ حال ملک کی معیشت کو جکڑنے کے ساتھ پرانے قرض کی ادائیگی میں بھی مشکلات پیدا کر رہی ہے۔
'قرض واپسی کی صلاحیت متاثر ہو سکتی ہے'
ماہرین اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ ملک کے ذمے واجب الادا قرضوں کا حجم پاکستان کی قرضوں کی واپسی کی صلاحیت متاثر کر رہا ہے۔
ان کے بقول حکومت نے بیرونی قرض اتارنے کے لیے نیا قرض لے کر ملک پر قرضوں کا مزید بوجھ ڈال دیا ہے۔ اس کے علاوہ مالیاتی خسارہ کم کرنے کے لیے بھی قرض حاصل کیا گیا ہے۔
حفیظ پاشا کہتے ہیں کہ اسٹیٹ بینک کے پاس مجموعی زرِ مبادلہ کے ذخائر سعودی عرب سے حال ہی میں حاصل ہونے والے تین ارب ڈالر کے باوجود ساڑھے 18 ارب ڈالر ہیں۔ ان کے مطابق غیر ملکی ادائیگیوں کے لیے رواں سال تقریباً 26 ارب ڈالر کے نئے قرض حاصل کرنا ہوں گے بصورت دیگر ملک کے زرِ مبادلہ کے ذخائر کم ہو سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر ملک کے زرِ مبادلہ کے ذخائر گرتے ہیں تو اس سے روپے کی قدر میں کمی واقع ہو گی۔
ماہر معیشت حفیظ پاشا کا کہنا تھا کہ پاکستان کا بیرونی قرض 127 ارب ڈالر ہے جو ملکی مجموعی پیداوار کا 44 فی صد بنتا ہے اور گزشتہ پانچ برسوں میں یہ کافی بڑھا ہے۔
سابق وزیر خزانہ اشفاق حسن کہتے ہیں کہ موجودہ حکومت نے اپنے سوا تین سالہ دور میں 40 ارب ڈالر کا قرض لیا جس سے پچھلے قرضے بھی ادا کیے گئے۔
ان کے بقول ماضی کا قرض اتارنے کے ساتھ موجودہ حکومت نے 27 ارب ڈالر قرض میں اضافہ بھی کیا ہے اور ملک کا مجموعی قرض 127 ارب ڈالر تک پہنچا دیا ہے۔
کیا پاکستان دیوالیہ ہو سکتا ہے؟
حفیظ پاشا کے بقول جب ایک ملک اپنے باہر کے قرض واپس نہیں کرسکتا تو وہ تیکنیکی طور پر دیوالیہ ہو جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر پاکستان قرضوں کی واپسی نہیں کرپاتا تو ڈیفالٹ کر جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس سال پاکستان کو بیرونی قرض کی ادائیگی کے لیے 26 ارب ڈالر چاہئیں۔ اگر زرِمبادلہ کے ذخائر برقرار رکھتے ہوئے اس کی ادائیگی کردی جاتی ہے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان دیوالیہ نہیں ہوا۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستان دیوالیہ نہ بھی ہو تو اس پر بوجھ بڑھتا جا رہا ہے اور معاشی مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے۔
البتہ اشفاق حسن کے مطابق پاکستان کے دیوالیہ ہونے کی باتیں سیاسی ہیں جو ناکامی چھپانے کے لیے کی جاتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان اُس وقت بھی دیوالیہ نہیں ہوا تھا جب مئی 1999 کو ایٹمی دھماکے کیے گئے تھے۔ ان کے بقول تب پاکستان میں تمام ذرائع سے پیسے آنا بند ہو گئے تھے پھر بھی قرض کی واپسی وقت پر کی جاتی رہی تھی۔
وہ کہتے ہیں کہ 1999 کے مشکل ترین حالات میں جب پاکستان کا مجموعی زرِ مبادلہ 40 کروڑ ڈالر رہ گیا تھا تب پاکستان دیوالیہ نہیں ہوا تو اب ڈیفالٹ ہونا مشکل ہے۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت بھی یہ کہتی ہے کہ اگر ہم آئی ایم ایف کے پاس نہ جاتے تو ملک دیوالیہ ہو جاتا جو کہ ایک سیاسی بہانہ ہے۔
کیا پاکستان کو آئی ایم ایف پروگرام جاری رکھنا ہو گا؟
حفیظ پاشا سمجھتے ہیں کہ اس وقت جو عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کا پروگرام اٹکا ہوا ہے وہ ستمبر 2022 میں ختم ہو جائے گا جس کے بعد حکومت کو یہ طے کرنا ہے کہ اگلے پروگرام میں جانا چاہیے یا نہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ چوں کہ ملک کی پیسوں کی ضروریات بڑھتی جا رہی ہیں تو یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان پھر سے آئی ایم ایف کے پروگرام میں چلا جائے۔
ان کے بقول انتخابات کا سال ہونے کی وجہ سے حکومت کے لیے یہ آسان فیصلہ نہیں ہو گا کہ وہ سخت معاشی پالیسی کی طرف جائے یا پہلے کچھ ایسا کرے کہ حکومت کی ساکھ میں بہتری آئے۔
حفیظ پاشا کا کہنا تھا کہ اگر پاکستان دیوالیہ ہونے کی صورت پر پہنچ جاتا ہے تو بھی آئی ایم ایف پروگرام کی وجہ سے دیوالیہ نہیں ہو گا کیوں کہ اگر کوئی ملک آئی ایم ایف پروگرام میں ہوتا ہے تو وہ عام طور پر دیوالیہ نہیں ہوتا۔
البتہ ان کے بقول دیوالیہ ہونے سے بچنے کے لیے بھی پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ آئی ایم ایف کا پروگرام جاری رہے اور اس کی بنیاد پر معاشی اصلاحات پر کام کیا جا سکے تاکہ برآمدات میں اضافہ اور درآمدات میں کمی ہو اور اگلے دو تین سال میں معیشت میں کچھ بہتری آئے۔
اشفاق حسن کا کہنا ہے کہ دو ہفتے قبل حکومت کی معاشی ٹیم کے اجلاس میں انہوں نے وزیرِ اعظم سے کہا تھا کہ اگر تجارتی خسارہ کم نہ کیا تو دوبارہ آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑے گا۔
پاکستان قرضوں سے کیسے چھٹکارا حاصل کرسکتا ہے؟
معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ ملک کے بڑھتے مالیاتی خسارے کے علاوہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی اور شرح سود کا بلند ہونا بھی پاکستان کے قرضوں میں اضافے کی وجوہات میں شامل ہے۔
اشفاق حسن کے بقول پاکستان کو جارحانہ اور منتخب درآمدات میں کمی کی پالیسی پر عمل کرنا چاہیے جو ان کے مطابق گزشتہ تین سال میں نہیں ہو سکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایک ملک جو قرضوں میں ڈوب رہا ہے وہاں ہر سال اربوں روپے مالیت کی مہنگی گاڑیاں منگوائی جاتی ہیں۔ امرا کے کتوں اور بلیوں کے کھانے اور شیمپو تک باہر سے آتے ہیں تو کیسے تجارتی خسارہ کم ہو گا۔
حفیظ پاشا کا کہنا تھا کہ پاکستان جب بھی اپنی شرح نمو بڑھانے کی کوشش کرتا ہے تو درآمدات تیزی سے بڑھ جاتی ہیں جس کے نتیجے میں تجارتی خسارہ بڑھ جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کو درآمدات کو کم اور برآمدات کو بڑھانا ہو گا۔ اگرچہ اس سال کچھ حد تک برآمدات بڑھانے میں کامیابی ہوئی ہے لیکن قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے درآمدات میں 60 فی صد اضافہ ہوا ہے جس سے تجارتی خسارہ بڑھ گیا ہے۔