رسائی کے لنکس

حکومت اور تحریکِ لبیک کا 'خفیہ' معاہدہ، کیا ریاست کی رٹ کمزور ہوئی؟


پاکستان میں کالعدم تحریکِ لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) اور حکومت کے درمیان اتوار کو طے پانے والا معاہدہ تاحال منظرِ عام پر نہیں آیا۔ جہاں اپوزیشن جماعتیں یہ معاہدہ منظرِ عام پر لانے کا مطالبہ کر رہی ہیں تو وہیں بعض تجزیہ کار اس معاہدے پر شکوک و شبہات کا اظہار کر رہے ہیں۔

بعض تجزیہ کار تحریک لبیک کے احتجاج کے بعد حکومت کے ساتھ معاہدے کو ریاست کی کمزوری سمجھتے ہیں جب کہ کچھ مبصرین کا کہنا ہے کہ حکومت نے یہ معاہدہ کر کے ملک کو تصادم سے بچا لیا ہے۔

سابق وزیرِ داخلہ معین الدین حیدر کہتے ہیں کہ حکومت نے محاذ آرائی سے بچنے کے لیے مذہبی جماعت سے معاہدہ کیا کیونکہ انہیں خدشہ تھا کہ ایسا کرنے سے ملک میں امن و امان کا مسئلہ پیدا ہو سکتا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے معین الدین حیدر کا کہنا تھا کہ ریاست یا اسٹیبلشمنٹ کمزور نہیں ہے کیونکہ یہ کالعدم تحریکِ طالبان، جیشِ محمد اور لشکرِ جھنگوی جیسے گروہوں سے کامیابی سے نمٹ چکی ہے۔

اُن کے بقول سوات اور وزیرستان میں ریاست کی رٹ برقرار رکھنے کے لیے کامیاب آپریشن کیے گئے، لہذٰا ریاست ملک کے اندر انتشار پھیلانے والے عناصر سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

مذہبی و سیاسی امور کے ماہر پروفیسر خورشید ندیم کہتے ہیں کہ اس سارے عمل میں کالعدم جماعت کو ہر اعتبار سے کامیابی ملی ہے اور ریاست کے حصے میں کچھ نہیں آیا جب کہ مذہبی گروہوں کے ہاتھوں ریاست کو یرغمال بنانے کا عمل آگے بڑھا ہے۔

خیال رہے کہ پاکستان کی حکومت اور کالعدم مذہبی جماعت تحریک لبیک کے درمیان اتوار کو مذاکرات کے نتیجے میں معاہدہ طے پا گیا تھا جسے ابتدائی طور پر خفیہ رکھا جا رہا ہے۔

پیغمبرِ اسلام کے خاکوں کی اشاعت پر فرانسیسی سفیر کی بے دخلی اور ٹی ایل پی کے امیر سعد رضوی کی رہائی کے مطالبات پر ٹی ایل پی نے جمعہ 22 اکتوبر کو لاہور سے اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ شروع کیا تھا جسے روکنے کے لیے جھڑپوں کے دوران ہلاکتیں بھی ہوئی تھیں۔

حکومت اور مذہبی رہنماؤں کے معاہدے کے اعلان کے باوجود احتجاجی مارچ کے شرکا وزیر آباد میں موجود ہیں اور تحریک کے امیر کی رہائی تک شرکا نے وزیرِ آباد میں رہنے کا اعلان کر رکھا ہے۔

'ریاست مذہب کارڈ کے سامنے گھٹنے ٹیک دیتی ہے'

مذہبی جماعتوں پر تحقیق کرنے والے تجزیہ کار قمر چیمہ کہتے ہیں کہ تحریک لبیک کے ساتھ ہونے والا حالیہ معاہدہ مذہبی جتھوں کے سامنے ہتھیار ڈالنے کے مترادف ہے اور یہ ریاست کا وطیرہ رہا ہے کہ مذہبی نعرے اور تشدد پسند گروہوں کے سامنے ریاست گھٹنے ٹیک دیتی ہے۔

اُن کے بقول ریاست کے سامنے جو بھی مذہب کارڈ استعمال کرتا ہے، ریاست اس کے سامنے بے بس ہو جاتی ہے۔

قمر چیمہ کہتے ہیں کہ حکومت کو خطرہ تھا کہ اگر ٹی ایل پی کے ساتھ سختی کی گئی تو نیا بحران جنم لے سکتا تھا جس سے لامحالہ اُن کا ووٹ بینک بھی متاثر ہو سکتا تھا۔

خیال رہے کہ حکومت ریاست کی کمزور ہونے کے تاثر کو رد کرتے ہوئے واضح کر چکی ہے کہ تصادم سے گریز کے لیے حکومت نے کالعدم تحریک سے مذاکرات کا فیصلہ کیا تھا۔

سیاسی جماعتوں کا معاہدہ منظرِ عام پر لانے کا مطالبہ

پاکستان کی سیاسی جماعتیں کالعدم جماعت کے ساتھ ہونے والے اس معاہدے کو خفیہ رکھنے پر تشویش ظاہر کر رہی ہیں۔ پیپلز پارٹی نے کالعدم تحریک لبیک پاکستان سے کیے گئے معاہدے کو فوری طور پر منظرِ عام پر لانے کا مطالبہ کیا ہے۔

پیپلزپارٹی کے رہنما سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر کہتے ہیں کہ عوام یہ جاننے کا حق رکھتے ہیں کہ کئی روز تک نطامِ زندگی معطل رکھنے والوں کے ساتھ کیا طے پایا؟

پاکستان کے انگریزی روزنامے 'ڈان' کے اسلام آباد میں ریذیڈنٹ ایڈیٹر فہد حسین کہتے ہیں کہ کالعدم جماعت سے کیے گئے معاہدے کو خفیہ رکھنے سے یہ تاثر مل رہا ہے کہ شاید اس میں حکومت کی سبکی کا کوئی پہلو ہو۔

اُن کے بقول معاہدے میں کچھ نہ کچھ ایسا ہے جو ریاست اور قومی مفاد کے خلاف ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر حکومت نے دباؤ میں آ کر یہ معاہدہ کیا ہے تو یہ پاکستان اور پاکستان کے نظام کے لیے ایک دھچکہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایسا اس وجہ سے بھی ہے کہ ریاست نے خود ان تنظیموں کو وجود دیا اور پھر ان کا قد بڑھانے اور سیاسی زمین پر پاؤں جمانے میں مدد کی۔ وہ کہتے ہیں کہ اس قسم کی پالیسیوں کا ریاست نے ماضی میں بھی خمیازہ بھگتا اور اب بھی بھگتنا ہو گا۔

متشدد گروہوں کو سیاسی دھارے میں لانے کی پالیسی کارگر ہو گی؟

حکومت اور ٹی ایل پی کے معاہدے کے نکات اگرچہ سرکاری طور پر سامنے نہیں آئے ہیں تاہم ٹی ایل پی کا دعویٰ ہے کہ ان کی جماعت پر سے پابندی ہٹا دی جائے گی جس کے نتیجے میں وہ بدستور انتخابی سیاست میں حصہ لیتے رہیں گے۔

خیال رہے کہ 2018 کے عام انتخابات میں تحریک لبیک 20 لاکھ سے زائد ووٹ حاصل کر کے ملک کی پانچویں بڑی سیاست جماعت بن کر ابھری تھی۔

سیاسی و مذہبی مبصرین کا کہنا ہے کہ ریاست کے پاس متشدد گروہوں سے نمٹنے کی پالیسی نہ ہونے کے باعث انہیں قومی و سیاسی دھارے میں لانے کی کوشش کی جاتی ہے تاہم ماضی میں یہ حکمت عملی کارگر ثابت نہیں ہو سکی تھی۔

تحریکِ لبیک پاکستان کالعدم جماعت ہے یا نہیں؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:16 0:00

معین الدین حیدر کہتے ہیں کہ معاہدے کے نتیجے میں تحریک لبیک پر سے پابندی ہٹا دی جائے گی اور وہ انتخابات میں حصہ لے کر قومی دھارے میں آ جائے گی۔

اُن کے بقول متشدد مذہبی گروہوں کو قومی دھارے میں شامل کرنے کی پالیسی ماضی میں کامیاب نہیں رہی لہذا اس حوالے سے کچھ حدود و قیود کا تعین کرنا چاہیے کہ سیاسی دھارے میں شامل ہو کر یہ جماعتیں تشدد کو مکمل طور پر ترک کریں۔

فہد حسین کہتے ہیں کہ جب یہ متشدد جماعتیں سیاست میں حصہ لیں گی تو قومی سیاسی جماعتیں ان کا مقابلہ کیسے کر سکتی ہیں اور اس بات کی ضمانت کون دے گا کہ مستقبل میں یہ تنظیمیں امن و امان کا مسئلہ پیدا نہیں کریں گی۔

قمر چیمہ کہتے ہیں کہ ریاست نے دہشت گردی کے خلاف بہت بہتر جنگ لڑی تاہم معاشرے کو عدم تشدد کی طرف لے جانے کا کوئی منصوبہ موجود نہیں ہے۔

تحریک لبیک کے ساتھ مذاکرات کرنے والی حکومتی کمیٹی کا دعویٰ ہے کہ تمام معاملات افہام و تفہیم کے ساتھ حل کر لیے جائیں گے اور ٹی ایل پی جلد اپنا دھرنا ختم کر دے گی۔

اتوار کو اسلام آباد میں وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے مذاکراتی کمیٹی کے رُکن مفتی منیب الرحمٰن نے کہا تھا کہ فریقین کے درمیان اتفاقِ رائے سے معاہدہ طے پا چکا ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ تناؤ کی فضا میں جذبات کو قابو میں رکھنا خوش آئند ہے۔ تاہم معاہدے کی تفصیلات مناسب وقت پر سامنے آئیں گی۔

مفتی منیب الرحمٰن کا کہنا تھا کہ ہم نے مصالحت کار کے فرائض انجام دیے اور مذاکرت کے لیے کئی گھنٹے محنت کی۔

XS
SM
MD
LG