رسائی کے لنکس

نائیجیریا میں اسکولوں کے طلبا اغواکاروں کا ہدف کیوں بنے ہوئے ہیں؟


کاگارا میں ایک اسکول پر حملے کے بعد خالی کلاس روم کا ایک منظر (ایسوسی ایٹڈ پریس۔ 18 فروری 2021)
کاگارا میں ایک اسکول پر حملے کے بعد خالی کلاس روم کا ایک منظر (ایسوسی ایٹڈ پریس۔ 18 فروری 2021)

نائیجیریا میں مسلح افراد نے ایک اور اسکول پر حملہ کیا اور اس بار تین سال کی عمر تک کے بچوں کو بھی ساتھ لے گئے تاہم بعد ازاں ایسے کم عمر بچوں کو جنگل میں چھوڑ دیا جو گروپ کے ساتھ چل نہیں سکتے تھے۔

ریاست نائیجر میں صالح تانکو اسلامک اسکول سے اتوار کے روز اغوا کی واردات اس سال ملک کے شمال میں طلبا کو تاوان کے لیے اغوا کرنے کے سلسلے کی تازہ ترین کڑی ہے۔ اغوا ہونے والے کچھ یونیورسٹی کے طالب علم ہیں لیکن کچھ ایلیمنٹری سکول کے بچے بھی مغویان میں شامل ہیں۔

دہشت ناک اغوا کے بعد، اغواکاروں نے کادونا کی گرین فیلڈ یونیورسٹی کے پانچ طالب علموں کو ہلاک کر دیا ہے کیونکہ ان کے والدین اغوا کاروں کے مطالبات پورے نہیں کر پائے تھے۔

شمال مشرقی نائجیریا میں اسکول کی لڑکیوں کے اغوا کے خلاف مظاہرہ (فائل فوٹو: رائٹرز)
شمال مشرقی نائجیریا میں اسکول کی لڑکیوں کے اغوا کے خلاف مظاہرہ (فائل فوٹو: رائٹرز)

ایسوسی ایٹڈ پریس نے ایک تفصیلی جائزہ لیا ہے کہ افریقہ میں سب سے زیادہ آبادی والے اس ملک نائیجیریا میں سکولوں سے اغوا کاری معمول کیوں بن گیا ہے؟ حکومت کے ردعمل پر اطراف سے شدید تنقید کیوں ہو رہی ہے؟

کیا نائیجیریا میں پہلے ایسا کبھی نہیں ہوا؟

نائیجیریا کو سال 2014 میں بین الاقوامی توجہ ملی جب ایک انتہا پسند گروپ بوکو حرام نے چیبوک میں 276 لڑکیوں کو اغوا کر لیا۔ اس واقعے کے بعد ’’برنگ بیک آور گرلز‘‘ کے ہیش ٹیگ کے ساتھ ایک عالمی مہم چل پڑی۔ نوجوان لڑکیوں کو زبردستی مذہب اسلام قبول کروایا گیا اور ان کو اپنے اغواکاروں کے ساتھ شادی پر مجبور کیا گیا۔ کئی لڑکیوں کے ہاں اب اولادیں ہیں، جب کہ بعض فرار ہونے میں کامیاب ہو گئیں اور سو سے زیادہ لڑکیاں سات سال گزر جانے کے بعد بھی لاپتا ہیں۔

سال 2018 میں بوکو حرام سے الگ ہونے والے ایک گروپ نے، جس کو آئی ایس ڈبلیو اے پی (اسواپ) کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، داپچی میں واقع ایک گورنمنٹ گرلز سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کالج سے 110 لڑکیوں کو اغوا کر لیا۔ پانچ لڑکیاں، جہادیوں کے استعمال والی گاڑیوں میں، جن میں گنجائش سے زیادہ لوگ موجود تھے، دم گھٹنے سے ہلاک ہو گئیں۔ ایک کرسچیئن لڑکی شاریبو، اب بھی اغواکاروں کی تحویل میں ہے جب کہ باقی لڑکیوں کو رہا کر دیا گیا ہے۔

اگرچہ اس سے پہلے بھی کئی بار اغوا کے واقعات رونما ہوئے ہیں لیکن سال 2021 میں اس طرح کے واقعات میں تیزی آئی ہے۔ فروری سے لے کر اب تک اسکولوں سے اجتماعی اغوا کے پانچ واقعات رپورٹ ہو چکے ہیں۔

اغواکاروں کے بارے میں کیا مشہور ہے؟

نائیجیریا کے حکام نے اب تک صرف ’’ ڈاکوؤں‘‘ کو ملک کے شمال سے اغوا کے یکے بعد دیگرے ہونے والے واقعات کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ اغواکار سابق مویشی پال ہیں جو اب ایک منظم مسلح گروپ کی شکل اختیار کر گئے ہیں اور اغوا برائے تاوان میں مہارت رکھتے ہیں۔

گرین فیلڈ یونیورسٹی پر حملے میں ملوث اغوا کاروں نے طالب علموں کی وڈیو جاری کی ہے جنہیں یرغمال بنایا گیا ہے لیکن اغواکاروں نے اپنی شناخت نہیں بیان کی ہے۔ تاوان کا مطالبہ کیا گیا ہے لیکن ڈاکووں نے اپنے انتہا پسندانہ نظریات ظاہر نہیں کیے ہیں۔

حکام کو خدشہ ہے کہ شمال مغرب میں موجود ان ڈاکووں کا ان انتہا پسند مسلمان گروپوں کے ساتھ کوئی تعلق ہے جو شمال مشرق کے علاقوں میں متحرک رہے ہیں۔ امریکی حکام نے بتایا ہے کہ ایک امریکی کو نائیجریا کے شمال مغربی سرحدی علاقے سے اغوا کرنے کے بعد شمال مشرق میں انتہا پسندوں کے حوالے کیا گیا، جسے آخر بازیاب کرا لیا گیا۔ یہ واقعہ اس جانب اشارہ کرتا ہے کہ ان گروپوں کا ایک دوسرے کے ساتھ کوئی تعلق ہے۔

اغوا کار بعض ایسے طریقے بھی اپنائے ہوئے ہیں جو جہادی گروپوں نے بہت عرصے تک استعمال کیے ہیں۔ جیسے یرغمال بنائے گئے افراد کی وڈیو بنانا۔ ادھر مسلح افراد نے، جنہوں نے گرین فیلڈ یونیورسٹی کیمپس پر حملہ کر کے طالب علموں کو اغوا کر لیا تھا، انہوں نے پانچ کو ہلاک کرنے کے بعد باقی کو رہا کر دیا ہے۔ رہا ہونے والے طالب علم سڑکوں پر پیدل چلتے پائے گئے۔

کیا تاوان ادا کیا جا رہا ہے؟ کیا تاوان کی ادائیگی مزید واقعات کا سبب بن رہی ہے؟

اگرچہ حکام کسی طرح کے تاوان کی ادائیگی سے انکار کرتے ہیں لیکن نائیجیریا کی حکومت اسکول کے بچوں کے اغوا کے واقعات کے بعد ان مسلح گروپوں کے ساتھ طویل مذاکرات کا حصہ بننے میں مشہور ہے۔ جب بچوں کو رہائی مل جاتی ہے تو حکام اکثر دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کو فوج نے بازیاب کرایا ہے یا کہ یرغمال بنائے گئے طلبا کو رضاکارانہ طور پر آزاد کیا گیا ہے۔

نائیجریا کے بہت سے شہری ان دعوؤں پر بھروسا نہیں کرتے۔ اور میڈیا کے اداروں نے بھاری رقوم کی بطور تاوان ادائیگی کی وڈیوز جاری کی ہیں بشمول چیبوک میں اسکول طالبات کی بازیابی کے۔ بوکو حرام کے بعض سینئر کمانڈروں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کو چیبوک کی لڑکیوں کی رہائی کے بدلے رہائی دی گئی۔ حکومت ان الزامات کی تردید کر چکی ہے۔

اغوا کے واقعات کو روکا کیوں نہیں جا سکتا؟

’اسکول، بالخصوص جو دور دراز کے علاقوں میں موجود ہیں ان کی سکیورٹی نہ ہونے کے برابر ہے۔ لہٰذا مسلح افراد کے لیے بہت آسان ہے کہ وہ اسکول میں داخل ہوں اور جتنے بچے چاہیں ساتھ لے جائیں۔ ‘ یہ کہنا ہے ارنسٹ اریک کا جو یونیورسٹی آف ابوجا میں سینئر لیکچرر ہیں۔

کیمرون میں بوکو حرام کی طرف سے رہائی پانے والے افراد گروپ میں بیٹھے ہیں (وی او اے)
کیمرون میں بوکو حرام کی طرف سے رہائی پانے والے افراد گروپ میں بیٹھے ہیں (وی او اے)

نائجیریا کی فوج نے بھی شمال مشرق میں بوکو حرام کے خلاف عشرہ بھر سے ایک ڈھیلی ڈھالی لڑائی شروع کر رکھی ہے۔ اور بہت سی پولیس فورسز سیکیورٹی دینے کے لیے درکار اہلیت نہیں رکھتی ہیں۔

کیا والدین بچوں کو بورڈنگ سکول بھجوانے پر نظر ثانی کر رہے ہیں؟

نائجیریا میں اسکولوں پر حالیہ حملوں کے بعد خدشات پیدا ہو رہے ہیں کہ والدین بڑھتے ہوئے عدم تحفظ کے باعث اپنے بچوں کو اسکولوں سے نکال لیں گے۔ شمالی نائجیریا میں پہلے ہی شرح خواندگی پورے ملک کی نسبت کم ترین سطح پر ہے۔ اور اغوا کے حالیہ واقعات نے بچوں کو اسکول بھجوانے میں والدین کی حوصلہ شکنی کی ہے۔

تجزیہ کار اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ اس صورت حال کے نتیجے میں مذہبی انتہا پسندی کو طویل المدت فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ نائیجیریا کے دونوں علاقوں میں تعلیم کی کمی کو یہاں غربت کی بڑی وجہ قرار دیا جاتا ہے۔ اور ان پڑھ نوجوانوں کی یہاں بڑی تعداد انتہا پسند گروپوں اور مسلح گینگز کے لیے تیار رنگروٹس کی حیثیت رکھتی ہے۔

XS
SM
MD
LG