رسائی کے لنکس

لیڈی ڈیانا کو 'دھوکے سے' متنازع انٹرویو پر راضی کرنے والے صحافی نے معافی مانگ لی


لیڈی ڈنانا کا متنازع انٹرویو لینے والے صحافی اے بی سی نیوز کے ایک پروگرام نائٹ لائن کے پینل میں گفتگو کر رہے ہیں۔ فائل فوٹو
لیڈی ڈنانا کا متنازع انٹرویو لینے والے صحافی اے بی سی نیوز کے ایک پروگرام نائٹ لائن کے پینل میں گفتگو کر رہے ہیں۔ فائل فوٹو

شہزادی ڈیانا کا دھوکے سے متنازع انٹرویو لینے والے بی بی سی کے صحافی مارٹن بشیر نے شہزادہ ولیم اور ہیری سے معافی مانگ لی ہے۔ لیکن ان کا کہنا ہے کہ شہزادی ڈیانا کے انٹرویو کو ان کی موت سے جوڑنا غیر مناسب ہے۔

جمعرات کے روز سینئر ریٹائرڈ جج جان ڈائسن کی شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ بشیر نے بینک کی جعلی دستاویزات جاری کیں، جس میں جھوٹا دعویٰ کیا گیا تھا کہ خفیہ سروس نے شہزادی ڈیانا پر نظر رکھنے کے لیے ان کے قریبی دوستوں کو رقم ادا کی۔

اٹھاون سالہ بشیر نے وہ دستاویزات ڈیانا کے بھائی چارلس اسپینسر کو دکھائیں تاکہ وہ شہزادی ڈیانا اور ان کے درمیان ملاقات کا بندوبست کر سکیں اور ان کا اعتماد جیت سکیں۔

سنڈے ٹائمز سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ شہزادی ڈیانا کے بیٹوں شہزادہ ولیم اور ہیری سے دل کی گہرائیوں سے معافی مانگتے ہیں۔

انہوں نے اخبار کو بتایا کہ "میں ڈیانا کو کبھی کوئی نقصان نہیں پہنچانا چاہتا تھا، اور مجھے یقین ہے کہ میں نے ایسا نہیں کیا"

لیڈی ڈیانا بوسنیا کے اپنے ایک دورے کے موقع پر جنگ کے متاثرہ خاندان کے ساتھ ایک یادگار فوٹو۔ 7 اگست 1997
لیڈی ڈیانا بوسنیا کے اپنے ایک دورے کے موقع پر جنگ کے متاثرہ خاندان کے ساتھ ایک یادگار فوٹو۔ 7 اگست 1997

لیکن شہزادہ ولیم کا کہنا ہے کہ بشیر کے اقدامات اور انٹرویو نے ان کے والدین کے رشتے میں دراڈ ڈالنے میں " بڑا کردار" ادا کیا۔ اور ان کی زندگی کے آخری برسوں میں " ان کے اندر خوف، دماغی مرض اور تنہائی میں واضح کردار ادا کیا۔

پرنس ہیری کہہ چکے ہیں کہ دھوکہ دہی جیسے عوامل نے ان کی والدہ کی موت میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔

انہوں نے کہا ، "استحصال اور غیر اخلاقی طریقوں کے کلچر نے ان کی والدہ کی جان لے لی"۔

شہزادی ڈیانا 1997 میں 36 سال کی عمر میں ایک کار حادثے میں ہلاک ہو گئیں تھیں۔

بشیر نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا، "مجھے نہیں لگتا کہ ان کی زندگی میں ہونے والے کئی واقعات اور ان کے فیصلوں سے جڑے پیچیدہ امور کے لئے مجھے ذمہ دار قرار دیا جاسکتا ہے۔

انہوں نے اخبار کو بتایا" ایسا کہنا کہ میں واحد ذمہ دار ہوں میرے خیال میں غیر معقول اور غیر منصفانہ ہے۔ میں ان سے محبت کرتا تھا "

انہوں نے دعوی کیا کہ 1995 کا انٹرویو ڈیانا کی شرائط پر لیا گیا تھا جس کے بعد وہ اچھے دوست رہے۔ اس انٹرویو کو دو کروڑ 28 لاکھ لوگوں نے ٹی وی پر دیکھا۔

"مجھے اور میرے خاندان کو ان سے محبت تھی"۔

بشیر نے یہ انکشاف بھی کیا کہ پرنسز ڈیانا ان کی اہلیہ اور نوزائیدہ بچے کو اسپتال میں ملنے گئی تھیں اور شہزادی نے ان کے بڑے بچے کے لئے کینسنٹن پیلس میں سالگرہ کی تقریب منعقد کی تھی۔

بشیر نے کہا ہے کہ انہیں ڈیانا کے بھائی کو جعلی دستاویزات دکھانے پر افسوس ہے۔ لیکن انٹرویو کے دوران کیےجانے والے انکشافات سے ان کا "کوئی تعلق نہیں" تھا۔

لیڈی ڈیانا کی ایک یادگار تصویر
لیڈی ڈیانا کی ایک یادگار تصویر

اس انٹرویو میں ڈیانا نے انکشاف کیا تھا کہ ان کی شادی میں تین لوگ شراکت دار ہیں۔ وہ، چارلس اور طویل عرصے سے ان کے ساتھ تعلقات میں رہنے والی کیملا پارکر باؤلس، جو اب شہزادہ چارلس کی بیوی ہیں۔ اس انٹرویو میں انہوں نے خود بھی کسی کے ساتھ ’تعلق‘ قائم ہونے کا اعتراف کیا تھا۔

بشیر کو اس وقت بہت کم لوگ جانتے تھے، لیکن بعد میں امریکی ٹی وی نیٹ ورکس پر ان کا کیرئیر بام عروج پر گیا۔ انہوں نے مائیکل جیکسن جیسی معروف شخصیت کے انٹرویو کئے۔

پاپ گلوکار کے اہل خانہ نے بھی بشیر کو ان کی موت کا ذمہ دار قرار دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ انٹرویو کے نتیجے میں انھیں منشیات پر انحصار کرنا پڑا۔

بشیر، بی بی سی کے ساتھ مذہب ڈیسک پر بطور ایڈیٹر کام کر رہے تھے۔ گزشتہ ہفتے ڈائسن رپورٹ جاری ہونے سے کچھ گھنٹوں پہلے انہوں نے خرابی صحت کا جواز دے کر بی بی سی کے اعلیٰ عہدیداران کو استعفی پیش کر دیا تھا۔

ڈائسن کی رپورٹ میں، 1996 میں بی بی سی کے سابق چیف ٹونی ہال کی جانب سے کی جانے والی غیر مؤثر تحقیقات کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ ٹونی ہال ان دنوں برطانیہ کی نیشنل گیلری کے صدر کی ذمہ داریاں سنبھال رہے تھے، ہفتے کے روز انہوں نے بھی اپنے عہدے سے استعفی دے دیا۔

بی بی سی کی مالی اعانت اور گورننس کا حکومتی جائزہ اگلے سال ہونے والا ہے جس کو اتوار کے روز ہوم سیکرٹری پریتی پٹیل نے ایک "انتہائی، انتہائی اہم لمحہ" قرار دیا ہے۔

انہوں نے اسکائی نیوز کو بتایا، "اس میں کوئی ابہام نہیں کہ اعتماد اور بھروسے کو مجروح کیا گیا ہے۔ اور اب وقت ہے کہ بی بی سی اس رپورٹ سے ملنے والی معلومات کا جائزہ لے اور اپنا اعتماد اور بھروسہ دوبارہ قائم کرے۔

XS
SM
MD
LG