رسائی کے لنکس

بھارت میں کرونا بحران: لوگ ادویات خریدنے بلیک مارکیٹ کا رخ کرنے لگے


بھارت میں جمعرات کے روز کرونا وائرس کی لپیٹ میں آنے والے تین لاکھ 79 ہزار نئے مریضوں سے ایک نیا ریکارڈ قائم ہوا ہے اور اسپتالوں پر پہلے سے موجود دباؤ میں اضافہ ہو گیا ہے۔

خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق، ایک اعشاریہ چار ارب نفوس پر مشتمل بھارت میں اس وقت 18 ملین افراد کرونا وائرس کی لپیٹ میں آچکے ہیں اور دو لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ مرنے والوں کی اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔

جوں جوں بھارت میں کرونا سے متاثرہ مریضوں کی تعداد میں اضافہ اور نظام صحت پردباو بڑھ رہا ہے، لوگ اپنے پیاروں کی جان بچانے کیلئے ہر طرح کے اقدامات اٹھا رہے ہیں۔چند کیسوں میں لوگ غیر مصدقہ طبی علاج کروا رہے ہیں اور یا پھر اُن زندگی بخش ادویات کے حصول کیلئے بلیک مارکیٹ کا رخ کر رہے ہیں، جن کی رسد بہت کم ہے۔

اموات کی تعداد اور رفتار اس قدر زیادہ ہے کہ مردے دفنانے کی جگہ کم پڑتی جا ری ہے اور شمشان گھاٹوں میں رات بھر آگ بھڑکتی رہتی ہے۔

ریمڈیزوِیئر نامی دوا اور چند سٹیرائڈ ادویات، جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ کووڈ نائٹین کے علاج میں مدد دیتی ہیں، ہسپتال میں داخل مریضوں کیلئے نایاب ہو کر رہ گئی ہے۔ سب سے بنیادی علاج، آکسیجن تھراپی کے لئے درکار آکسیجن کی قلت ہے، جس سے بہت سی اموات بلاوجہ اموات ہو رہی ہیں۔ یہاں تک کہ ہسپتال میں بستروں کی بھی قلت ہے۔ نئی دہلی، جو 39 ملین آبادی کا شہر ہے، وہاں صرف 14 انتہائی نگہداشت کے مفت بستر میسر ہیں۔

گو کہ بھارت میں کرونا سے متاثرہ افراد کے علاج کیلئے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن اور امریکہ کے جاری کردہ رہنما اصولوں کے مطابق کام کیا جارہا ہے، یہاں دیگر ملکوں کے برعکس وائرس سے قدرے کم متاثرہ افراد کو ملیریا کی روک تھام کی دوا ہائیڈرو کلوروکوئین یا آئیورمیکٹین بھی دی جا رہی ہے۔

کیا یہ ادویات، کووڈ نائٹین کے خلاف موثر ہیں، اس کا کوئی ثبوت نہیں ۔ڈبلیو ایچ او نے کرونا وائرس کے مریضوں کیلئے ان دونوں ادویات کے دینے پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔

بھارت جو کہ خود ادویات سازی کی صنعت میں سب سے آگے ہے، ادویات کی فراہمی سے متعلق اصول وضوابط وضع کرنے کے معاملے میں عالمی وبا کے پھیلاؤ سے پہلے بھی کمزور رہا ہے۔ ایسے میں کرونا کی بگڑتی ہوئی صورتحال میں مایوس لوگ کوئی بھی دوا استعمال کرنے کو تیار ہیں۔

طبی اخلاقیات کے ماہر، ڈاکٹر امر جیسانی کہتے ہیں کہ ایسی بہت سی ادویات جو صرف ڈاکٹر کے لکھے ہوئے نسخے پر ہی مل سکتی ہیں، بھارت میں بغیر ڈاکٹری نسخے کے کسی بھی سٹور سے خریدی جا سکتی ہیں۔ ان میں ہنگامی ادویات بھی شامل ہیں، جنہیں بھارتی حکام نے کووڈ نائینٹین کے لئے استعمال کرنے کی منظوری دی ہے۔

بھوپال میں پبلک ہیلتھ اور ایتھکس یا اخلاقیات پر کام کرنے والے ڈاکٹر اننت بھان نے متنبہ کیا ہے کہ خود اپنا علاج کرنے میں کئی خطرات ہیں۔ ان کا کہناہے کہ اینٹی وائرل اور سٹیرائڈز ادویات صرف ہسپتال میں لینی چاہئیں کیونکہ ان کے مضِر اثرات ہونے کا خطرہ ہوتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ زندگی بخش ادویات کسی ایک وقت میں زندگی بچا سکتی ہیں تو دوسرے وقت نقصان کا باعث بن سکتی ہیں۔ اس کا دار و مدار وقت اور علامات کی شدت پر ہے۔

مریضوں کو ادویات اور ہسپتال میں بستر دلانے کیلئے سرگرم نوجوانوں کے ایک گروپ 'یووا ہلا بول' سے وابستہ سدھانت سارنگ کہتے ہیں کہ بھارت میں بنائی جانے والی دوا، ریمڈیزویئر کی شیشی کی بلیک مارکیٹ میں قیمت اب بیس گنا اضافے سے ایک ہزار ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔

ستمبر میں ایک سرکاری ڈیٹا سے ظاہر ہوا تھا کہ بھارت میں اس دوا کی دو اعشاریہ چار ملین شیشیاں تیار کی گئی تھیں۔ لیکن ستمبر میں جب مریضوں کی تعداد میں کمی ہوئی، تو کمپنیوں نے معیاد ختم کر لینے والی ادویات کو پھینک دیا تھا اور ادویات کی پیداوار میں کمی ہوگئی تھی۔

سارنگ کہتے ہیں کہ دوا کی طلب بڑھنے کے ساتھ ہی ڈیلر بلیک مارکیٹ میں صرف نقد رقم کی ادائیگی کے بدلے دوا دینے پر اصرار کررہے ہیں۔

سدھانت نے بتایا کہ "لوگ اپنے سوٹ کیسوں میں دو سے تین لاکھ روپے یعنی ستائیس سو سے چار ہزار ڈالر لے کر ڈیلروں کے پاس(ادویات خریدنے) جا رہے ہیں"۔

حکام نےایسے ڈیلروں کی پکڑ دھکڑ کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ نئی دہلی میں، ایسے لوگوں اور دکانوں پر چھاپے مارے جا رہے ہیں، جن کے بارے میں شبہ ہے کہ انہوں نے آکسیجن کے سیلنڈر اور ادویات ذخیرہ کی ہوئی ہیں۔

ان تمام کوششوں کے باوجود، کووڈ نائٹین کے خلاف موثر ادویات بہت سوں کیلئے نایاب ہیں۔

XS
SM
MD
LG