پاکستان میں سینیٹ انتخابات کی تیاریاں جاری ہیں اور تمام سیاسی جماعتوں نے تین مارچ کو ہونے والے الیکشن کے لیے امیدواروں کے کاغذات جمع کرا دیے ہیں۔
سینیٹ الیکشن میں 170 امیدوار سامنے آئے ہیں لیکن بعض جماعتوں کی طرف سے ایک سے زائد امیدواروں کے کاغذات جمع کرائے گئے ہیں اور 21 فروری تک متبادل امیدواروں (کورنگ کینڈیڈیٹس) کے کاغذات واپس لے لیے جائیں گے۔
ان انتخابات کے دوران سیاسی جماعتوں کے جو امیدوار سامنے آئے ہیں ان میں سے بعض پر اعتراضات ہو رہے ہیں جس کے بعد ان کے نام واپس لیے جا رہے ہیں۔
بعض ایسے نام بھی سامنے آئے ہیں جن کے بارے میں کوئی توقع نہیں کر رہا تھا کہ وہ بھی سینیٹ انتخابات میں امیدوار ہوں گے۔
سینیٹ انتخابات میں اب تک سب سے زیادہ پریشان جماعت حکومتی پارٹی ہی نظر آ رہی ہے جہاں پارٹی ٹکٹ پر سب سے زیادہ اختلاف کی خبریں سامنے آ رہی ہیں۔
اسلام آباد سے سینیٹ انتخابات میں کون کون امیدوار؟
اسلام آباد میں سینیٹ کی دو نشستوں پر انتخاب ہونے جا رہا ہے جہاں اب تک 10 امیدوار سامنے آئے ہیں۔
اسلام آباد سے سینیٹ کی ایک جنرل نشست کے لیے چھ اور خواتین کی ایک سیٹ کے لیے چار امیدوار سامنے آئے ہیں۔
اس الیکشن میں دلچسپ صورتِ حال یہ ہے کہ دارالحکومت سے امیدوار اور موجودہ مشیرِ خزانہ عبد الحفیظ شیخ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رہنما سید یوسف رضا گیلانی کے خلاف انتخاب لڑ رہے ہیں۔ عبد الحفیظ شیخ سابق وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی کی کابینہ کا بھی حصہ رہے ہیں۔
اس نشست پر پاکستان مسلم لیگ (ن) نے اسلام آباد کے ماضی کے ایم این اے ڈاکٹر طارق فضل چوہدری کو امیدوار نامزد کیا ہے لیکن امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم کا نام استعمال کرتے ہوئے ڈاکٹر طارق فضل چوہدری کا نام واپس لے لیا جائے گا اور اصل مقابلہ عبدالحفیظ شیخ اور یوسف رضا گیلانی کے درمیان ہوگا۔
ان تین ناموں کے علاوہ باقی تین متبادل امیدوار ہیں جن میں مسلم لیگ (ن) کے محمد یوسف اور پی ٹی آئی کے سید محمد علی بخاری اور فرید رحمٰن شامل ہیں۔
اسلام آباد میں خواتین کی ایک نشست کے لیے چار امیدواروں میں پی ٹی آئی کی فوزیہ ارشد، منیزہ جاوید مرزا، مسلم لیگ (ن) کی فرزانہ اور فرح ناز اکبر شامل ہیں۔
دو کورنگ امیدواروں کی موجودگی میں اصل مقابلہ فوزیہ ارشد اور فرزانہ کے درمیان ہی ہونے کا امکان ہے۔ کیوں کہ اسلام آباد سے جنرل نشست پر اگر یوسف رضا گیلانی کے لیے ڈاکٹر طارق فضل چوہدری کو دستبردار کرایا گیا تو پیپلز پارٹی بھی خواتین کی نشست کے لیے مسلم لیگ (ن) کی امیدوار کی حمایت کرے گی۔
اسلام آباد کی ان دو نشستوں کے لیے قومی اسمبلی کے 342 ارکان ووٹ دیں گے۔
اس وقت حکمران جماعت کے اتحادیوں کے ساتھ 180 ووٹ ہیں۔ جب کہ اپوزیشن اتحاد میں شامل جماعتوں کے پاس 158 ووٹ ہیں۔
جماعت اسلامی کے چار ووٹ اہمیت رکھتے ہیں۔ خفیہ رائے شماری کی صورت میں 15 ووٹ کا فرق آنا مشکل امر نہیں ہے اور اس نشست پر حکومت کے لیے اپ سیٹ ہونے کا بھی امکان ہے۔ کیوں کہ یوسف رضا گیلانی کا حکمران جماعت اور اتحادیوں میں کئی ایم این ایز سے ذاتی روابط ہیں۔
عبدالحفیظ شیخ کے نام پر پی ٹی آئی کے بعض لوگوں کو بھی اعتراض ہے اور خفیہ رائے شماری کی صورت میں پیپلز پارٹی فائدہ اٹھانے کی پوری کوشش کرے گی۔
پنجاب میں کیا ہوگا؟
پنجاب میں سینیٹ کی 11 نشستوں میں سے سات جنرل، دو خواتین اور دو ٹیکنوکریٹس کی سیٹوں پر مقابلہ ہونے جا رہا ہے۔
پنجاب میں مسلم لیگ (ن) نے جنرل نشستوں پر جن امیدواروں کو میدان میں اتارا ہے ان میں مشاہد اللہ خان، پرویز رشید، زاہد حامد، سیف الملوک کھوکھر،افنان اللہ خان، سعود مجید، ساجد میر، بلیغ الرحمٰن اور کالم نگار عرفان صدیقی شامل ہیں۔
تحریک انصاف نے سیف اللہ نیازی، جمشید اقبال چیمہ، محمد خان مدنی، روبینہ اختر، ظہیر عباس کھوکھر، عون عباس بپی، عمر سرفراز چیمہ،چوہدری اعجاز احمد چوہدری، اعجاز حسین منہاس اور نیلم ارشاد شیخ شامل ہیں۔
مسلم لیگ (ق) نے کامل علی آغا کو ایک بار پھر ٹکٹ جاری کیا ہے۔
خواتین کی دو نشستوں کے لیے پی ٹی آئی کی زرقا سہروردی، فرحت شہزادی اور نیلم ارشاد شیخ، جب کہ مسلم لیگ (ن) کی بیرسٹر سعدیہ عباسی اور سائرہ افضل تارڑ امیدوار ہیں۔
ٹیکنو کریٹس کی نشست پر مسلم لیگ (ن) کے اعظم نذیر تارڑ اور پی ٹی آئی کے بیرسٹر علی ظفر اور عطا اللہ خان کے نام شامل ہیں۔
انتخابات کے حوالے سے پنجاب اسمبلی میں اس وقت 371 کے ایوان میں سینیٹر منتخب ہونے کے لیے 41.2 ووٹوں کی ضرورت ہے۔
تحریک انصاف 181 نشستوں کے ساتھ سرِ فہرست ہے۔ جب کہ اس کی اتحادی جماعت مسلم لیگ (ق) کی 10 نشستیں ہیں۔ راہِ حق پارٹی کا ایک رکن اور چار آزاد ارکان بھی حکومت کے ساتھ ہیں۔
مسلم لیگ (ن) کے چھ سے آٹھ باغی ارکان بھی حکومت کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں۔
اس طرح حکمران جماعت نو جنرل نشستوں میں سے پانچ نشستیں آسانی کے ساتھ جیتنے کی پوزیشن میں ہے۔
مسلم لیگ (ن) کی ایوان میں 165 نشستیں ہیں۔ اگر پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) کی حمایت کا اعلان کر دے تو چار نشستیں مسلم لیگ (ن) جیت سکتی ہے۔
مسلم لیگ (ق) کے چوہدری پرویز الہی 10 ایم پی ایز کے ساتھ حکومتی کوٹے سے سینیٹ کی ایک نشست لینا چاہتے ہیں۔ تاہم حکومت اور مسلم لیگ (ق) اس معاملے پر فی الحال خاموش ہیں اور مسلم لیگ (ق) کے کامل علی آغا سینیٹ کی نشست کے امیدوار ہیں۔
پنجاب میں پی ٹی آئی کے بڑے ناموں میں سیف اللہ نیازی اور اعجاز چوہدری اہم ہیں جن کی جیت ممکن بھی ہے۔
مسلم لیگ (ن) پرویز رشید، مشاہد اللہ خان، ساجد میر، زاہد حامد، بلیغ الرحمٰن اور عرفان صدیقی کو کامیاب دیکھنا چاہتی ہے۔
سیف الملوک کھوکھر حالیہ دنوں میں اپنی زمین کے تنازع کے بعد سینیٹ کی نشست کے لیے امیدوار ہیں اور یہ الیکشن جیتنے کے لیے اپنا پورا زور لگانا چاہتے ہیں۔
یہاں بھی سیکرٹ بیلٹ یا اوپن بیلٹ والا سوال موجود ہے اور انتخابات سیکرٹ بیلٹ سے ہونے کی صورت میں ایک سے دو سیٹوں کا فرق ہو سکتا ہے۔
ٹیکنوکریٹس کی دو نشستوں پر نواز شریف کے بیشتر کیسز میں وکیل اعظم نذیر تارڑ اور پی ٹی آئی کے بیرسٹر علی ظفر کی جیت ممکن ہے۔
مبصرین کے مطابق پنجاب میں حکومت کے لیے ایک بڑی مشکل بزدار حکومت ہی ہے۔ کیوں کہ پارٹی کے کئی ارکان ناراض ہیں اور وہ کھل کر مخالفت نہیں کر رہے۔ لیکن انتخابات کے دوران سیکرٹ بیلٹ میں اپنے غصے کا اظہار کر سکتے ہیں۔ اس وجہ سے حکومت اوپن بیلٹ کی پالیسی پر زیادہ زور دے رہی ہے۔
مسلم لیگ (ن) کے بعض ارکان پارٹی پالیسی پر سرِ عام اپنے غصے کا اظہار کر رہے ہیں اور ایسے میں ان کی طرف سے سیکرٹ بیلٹ پر پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دینا آسان ہو گا۔ جب کہ اوپن بیلٹ کے ذریعے ووٹ دینے پر پارٹی قیادت کی طرف سے ہمیشہ کے لیے مصالحت کا راستہ بند ہونے کا امکان ہے۔
سندھ میں پیپلز پارٹی کیا کرے گی؟
سینیٹ کے حالیہ انتخابات میں سندھ وہ واحد صوبہ ہے جہاں اب تک پیپلز پارٹی مکمل طور پر منظم نظر آ رہی ہے اور اپنے امیدواروں کے ناموں کے اعلان کے بعد پر سکون انداز میں الیکشن کی تیاری کر رہی ہے۔
پی ٹی آئی نے جن افراد کو ٹکٹ دیے ان کے ناموں پر اعتراض روز بڑھتے جا رہے ہیں اور پارٹی کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی خود اس صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے کراچی پہنچے۔
سندھ کی 11 نشستوں کے لیے 39 امیدوار سامنے آئے ہیں جن میں سے کئی کورنگ امیدوار بھی شامل ہیں اور آخری لمحات پر ان کے نام واپس لے لیے جائیں گے۔
سات جنرل نشستوں کے لیے حکومتی جماعت پیپلز پارٹی اور حزبِ اختلاف کی پی ٹی آئی نے اپنی اتحادی جماعت گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) کے ساتھ ساتھ سات امیدوار میدان میں اتارے ہیں۔ جب کہ متحدہ قومی موومنٹ کے پانچ امیدوار سامنے آئے ہیں۔
پیپلز پارٹی نے سلیم مانڈوی والا، شیری رحمٰن، تاج حیدر، شہادت اعوان، صادق علی میمن، دوست علی جسر اور جام مہتاب حسین ڈیہر کو ٹکٹ جاری کیے ہیں۔ان ناموں پر اب تک کسی حلقے کی جانب سے اعتراض نہیں کیا گیا۔
پی ٹی آئی نے سندھ سے فیصل واوڈا، محمد باقی مولوی، عمید علی جونیجو، محمد اشرف جبار اور زنیرہ ملک جب کہ جی ڈی اے نے پیر صدر الدین شاہ اور عبد الرحیم کو ٹکٹ جاری کیے ہیں۔
ایم کیو ایم پاکستان کے محمد عامر خان، فیصل سبزواری، سہیل منصور خواجہ، عبدالقادر خانزادہ اور ظفراحمد خان کمالی امیدوار ہیں۔
ٹیکنو کریٹس کی نشستوں پر پیپلز پارٹی کے فاروق ایچ نائیک، شہادت اعوان اور کریم احمد خواجہ ہیں۔ جب کہ پی ٹی آئی کے سیف اللہ ابڑو، حنید حسین لاکھانی، محمد حسن بخشی، ثمر علی خان اور ٹی ایل پی کے یشا اللہ خان افغانی ہیں۔
ایم کیو ایم نے رؤف صدیقی، سید قیصر عسکر زیدی اور ڈاکٹر شہاب امام کو ٹکٹ دیے ہیں۔
خواتین کی نشستوں پر پیپلز پارٹی نے پلوشہ خان، رخسانہ پروین اور خیر النسا جب کہ پی ٹی آئی نے سرینا عدنان، فضہ ذیشان، ارم وہاب بٹ اور فرزانہ حنیف کو ٹکٹ دیے۔ ایم کیو ایم نے خالدہ عطیب اور سبین غوری کو ٹکٹ جاری کیے ہیں۔
سندھ میں جنرل نشست پر انتخاب جیتنے کے لیے امیدوار کو 23 ووٹوں کی ضرورت ہو گی۔ 165 کے ایوان میں پیپلز پارٹی 96 نشستوں کے ساتھ سب سے بڑی پارٹی ہے۔ جب کہ تحریک انصاف 30 اور ایم کیو ایم 21 ایم پی ایز کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے۔ جی ڈی اے کے 14، تحریکِ لبیک کے پاس 3 اور ایم ایم اے کی ایک نشست ہے۔
سندھ میں مرکزی حکمران جماعت تحریک انصاف کو جیتنے کے لیے اتحادی جماعت ایم کیو ایم اور جی ڈی اے کے ساتھ مل کر چلنا ہو گا۔
موجودہ صورتِ حال میں صوبائی حکمران جماعت پیپلز پارٹی چار جنرل نشستیں با آسانی جیت سکتی ہے۔ جب کہ پی ٹی آئی ایک اپنی نشست جب کہ ایک ایم کیو ایم اور ایک جی ڈی اے کے ساتھ مل کر جیت سکتی ہے۔ لیکن اتحاد نہ ہونے کی صورت میں پیپلز پارٹی ایک نشست مزید جیت سکتی ہے۔
سندھ سے خواتین کی دو اور ٹیکنوکریٹس کی سیٹس پر بھی سخت مقابلہ متوقع ہے اور جیتنے والے امیدوار کو 82 ایم پی ایز کا ساتھ درکار ہو گا۔
پیپلز پارٹی کو خواتین کی ایک اور ٹیکنوکریٹ کی ایک نشست ملنے کا امکان ہے۔ جب کہ اپوزیشن اتحاد کی صورت میں ایک ایک نشست جیت سکتی ہے۔
مبصرین کے مطابق سندھ میں پی ٹی آئی کو سخت مشکلات کا سامنا ہے جہاں ایم این اے فیصل واوڈا کو سینیٹ کا انتخاب لڑانے پر مقامی قیادت اعتراض کر رہی ہے۔
فیصل واوڈا کا بطور ایم این اے کیس آخری مرحلے میں ہے اور امکان ہے کہ اس کیس کا فیصلہ ان کے خلاف آئے گا جس کے پیشِ نظر فیصل واوڈا کو سینیٹ کا الیکشن لڑایا جا رہا ہے اس پر پارٹی قائدین کو شدید تحفظات ہیں۔
دوسرا نام سیف اللہ ابڑو کا ہے جو ٹیکنوکریٹ کے سیٹ پر الیکشن لڑ رہے ہیں اور پارٹی کے سندھ کے قائدین کے اس نام پر زیادہ اعتراض سامنے آنے کے بعد شاہ محمود قریشی کراچی آئے ہیں۔ جب کہ وزیرِ اعظم عمران خان نے بھی اجلاس بلایا ہے جس میں ٹکٹ ہولڈرز پر اعتراضات کے بعد مزید غور کیا جا رہا ہے۔
خیبر پختونخوا کی صورتِ حال
خیبر پختونخوا میں حکمران جماعت تحریک انصاف کی اکثریت ہے اور حالیہ دنوں میں ویڈیو اسکینڈل کی وجہ سے یہاں کے ارکان اسمبلی بہت محتاط ہیں اور ابھی سے اپنے دیے گئے ٹکٹس پر اپنے اعتراضات بتا رہے ہیں۔
خیبر پختونخوا میں 12 نشستوں پر انتخابات ہونے جا رہے ہیں اور یہاں اب تک 51 امیدوار سامنے ہیں۔
سات جنرل نشستوں پر امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ پی ٹی آئی کے امیدوار ہی کامیاب ہوں گے۔
مسلم لیگ (ن) نے جنرل نشست کے لیے صرف ایک ٹکٹ عباس آفریدی کو جاری کیا ہے۔ جب کہ پیپلز پارٹی نے فرحت اللہ بابر کو ٹکٹ دیا ہے۔
جماعت اسلامی نے عطا الرحمن، جے یو آئی نے طارق خٹک اور اے این پی نے ہدایت اللہ خان کو ٹکٹ جاری کیا۔
پانچ آزاد امیدوار بھی میدان میں ہیں جن میں ملک نجیب گل خلیل، نصر اللہ خان وزیر، تاج محمد آفریدی، شکیل آفریدی اور سجاد حسین شامل ہیں۔
تحریک انصاف نے شبلی فراز، فیصل سلیم رحمٰن، محسن عزیز، اورنگزیب خان، ذیشان خانزادہ، دوست محمد خان، ناجی اللہ خٹک، حامد الحق، مینہ خان اور لیاقت خان ترکئی شامل ہیں۔
ٹیکنوکریٹس کی سیٹ پر پی ٹی آئی نے حامد الحق، دوست محمد خان، ہمایوں مہمند اور دلروز خان کو ٹکٹ جاری کیے ہیں۔
پیپلز پارٹی کے فرحت اللہ بابر، مسلم لیگ (ن) کے ریحان عالم خان، جے یو آئی کے زبیر علی اور اقبال خلیل جب کہ تین آزاد نصر اللہ خان وزیر، شوکت جمال امیر زادہ اور محمد علی خان سیف شامل ہیں۔
خواتین کی دو نشستوں پر جے یو آئی کی نعیمہ کشور اور عنایت بیگم، مسلم لیگ (ن) کی فرح خان، پیپلز پارٹی کی شازیہ طہماس خان اور مسرت جبیں آزاد امیدوار ہیں۔
پی ٹی آئی کی اہم امیدواروں میں ثانیہ نشتر، فلک ناز، زرین ریاض، صائمہ خالد، حمیدہ شاہد اور امت آرا کاکاخیل شامل ہیں۔
اقلیتی نشست پر پی ٹی آئی کے گردیپ سنگھ اور آریش کمار جب کہ جے یو آئی کے رنجیت سنگھ اور جاوید گل اور اے این پی کے آصف بھٹی امیدوار ہیں۔
خیبر پختونخوا میں 144 اراکین کے ایوان میں تحریک انصاف 94 سیٹوں کے ساتھ سب سے بڑی جماعت ہے۔
جنرل نشست پر انتخاب جیتنے کے لیے 21 ایم پی ایز کی ضرورت ہے اور موجودہ صورتِ حال میں اپوزیشن کی کوئی جماعت اکیلے انتخاب جیتنے کی پوزیشن میں نہیں ہے اور انہیں آپس میں اتحاد کی ضرورت ہو گی۔
اب تک کی پوزیشن کے مطابق پی ٹی آئی جنرل نشستوں میں سات میں سے پانچ نشستیں با آسانی حاصل کر سکتی ہے۔ جب کہ اپوزیشن کے 46 ارکان دو نشستیں جیتنے کی پوزیشن میں ہیں۔ لیکن ایسا صرف اتحاد کی صورت میں ممکن ہے۔
فرحت اللہ بابر کو پی ڈی ایم کے نام پر الیکشن جتوانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ لیکن اب تک تمام جماعتوں کی طرف سے حتمی طور پر اس بارے میں اعلان نہیں کیا گیا۔
خواتین کی دو نشستوں کے لیے 49 ووٹ فی سیٹ درکار ہیں اور آزاد ارکان کی موجودگی میں پی ٹی آئی دونوں نشستیں اپنے نام کر سکتی ہے۔ جب کہ اقلیتی اور ٹیکنوکریٹ سیٹ پر بھی پی ٹی آئی کو اکثریت حاصل ہے۔
ایسے میں کل 12 نشستوں میں سے 8 سے 10 نشستیں جیتنا پی ٹی آئی کے لیے ممکن ہے۔
اپوزیشن کے اتحاد کی صورت میں پی ٹی آئی کو زیادہ سے زیادہ 8 سیٹیں مل سکتی ہیں اور باقی دو جے یو آئی (ف)، ایک پیپلز پارٹی اور ایک اے این پی کو مل سکتی ہے۔
مبصرین کے مطابق خیبر پختونخوا میں بھی سیکرٹ یا اوپن بیلٹ الیکشن پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔ کیوں کہ یہاں موجود بعض امیدواروں پر صوبائی قیادت کو اعتراضات ہیں۔ ان میں سے ایک نام ڈاکٹر ہمایوں مہمند کا ہے جن کا پارٹی کے ساتھ کوئی خاص تعلق نہیں ہے لیکن وزیرِ اعظم سے قریبی تعلق پر انہیں ٹکٹ جاری کیا گیا۔
صوبائی وزیر شہرام ترکئی کے والد لیاقت ترکئی پر بھی پیسے کے ذریعے اثر انداز ہونے کا الزام ہے۔ جب کہ محسن عزیز بھی بڑے صنعت کار ہیں۔
خیبر پختونخوا میں نو آزاد امیدوار بھی موجود ہیں اور سیکرٹ بیلٹ ہونے کی صورت میں کوئی اپ سیٹ ہونے کا بھی اندیشہ ہے جس کی وجہ سے پی ٹی آئی اپنے ارکان پر بہت زیادہ نظر رکھ رہی ہے۔
ایک نام حامد الحق کا ہے جو کہ مدرسہ حقانیہ سے تعلق رکھتے ہیں اور پی ٹی آئی ان کے ذریعے صوبے میں مذہبی ووٹ کو برقرار رکھنا چاہتی ہے۔
پی ٹی آئی کے افتخار مہمند بھی ایک مہم چلا رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ویڈیو پر عمران خان نے سینیٹ کا ٹکٹ دینے کی یقین دہانی کی اس کے باوجود انہیں ٹکٹ نہیں دیا گیا۔ ایسے میں ارکان کی طرف سے تحفظات سامنے آ رہے ہیں اور پی ٹی آئی کی قیادت ایسی تمام اختلافی آوازوں سے نمٹنے کی کوشش کر رہی ہے۔
بلوچستان میں کیا پھر پیسہ چلے گا؟
بلوچستان اسمبلی کا ہمیشہ سے سینیٹ انتخابات میں پیسوں کے لین دین کے حوالے سے نام آتا رہا ہے اور اس کی بڑی وجہ متناسب نمائندگی کی شرط کی وجہ سے صرف 9 سے 10 ایم پی ایز کی مدد سے سینیٹر منتخب ہونا ہے اور ماضی میں کئی ارکان بھاری رقوم خرچ کر کے با آسانی سینیٹر منتخب ہوتے رہے ہیں۔
حالیہ انتخابات میں 65 اراکین 12 سینیٹرز کا انتخاب کریں گے۔ ایوان میں بلوچستان عوامی پارٹی 24 نشستوں کے ساتھ بڑی جماعت ہے۔ جب کہ ایم ایم اے 11، بلوچستان نیشنل پارٹی 10، پی ٹی آئی سات، ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی دو اور بی این پی عوامی تین نشستوں کے ساتھ موجود ہے۔
یہاں جنرل نشست پر نو ایم پی ایز ایک سینیٹر منتخب کریں گے اور موجودہ صورتِ حال میں 12 میں سے نو سینیٹرز بلوچستان عوامی پارٹی یا حکومتی اتحاد کے منتخب ہو سکتے ہیں۔ جب کہ پی ٹی آئی کو ایک سیٹ مل سکتی ہے۔
اپوزیشن میں ایم ایم اے کو ایک اور بی این پی مینگل بھی ایک سیٹ جیت سکتی ہے لیکن یہاں پر بھی اپوزیشن کا اتحاد ضروری ہے۔
بلوچستان وہ صوبہ ہے جہاں پی ٹی آئی کو سخت مشکلات کا سامنا رہا اور یہاں سے پی ٹی آئی کے جاری کردہ ٹکٹ جو عبدالقادر کو دیا گیا وہ سخت دباؤ کے باعث پی ٹی آئی کو واپس لینا پڑا۔ اب یہاں سے سید ظہور احمد کو ٹکٹ تو جاری کر دیا گیا ہے لیکن عبدالقادر آزاد حیثیت میں بھی کاغذات نامزدگی جمع کرا کر میدان میں ہیں۔
سید ظہور آغا کو بھی سال 2017 میں پارٹی چیئرمین کے خلاف مظاہرہ کرنے پر پارٹی رکنیت کی معطلی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ لیکن اب انہیں ٹکٹ بھی جاری کیا گیا ہے جس پر پارٹی کے بعض قائدین کی طرف سے ان پر تنقید ہو رہی ہے۔
صوبے میں سابق وفاقی وزیر یار محمد رند کے صاحب زادے میر سردار خان رند آزاد حیثیت میں انتخاب لڑنے جا رہے ہیں۔
بلوچستان عوامی پارٹی نے سرفراز احمد بگٹی، ستارہ ایاز، عبدالخالق خان، منظور احمد، اورنگزیب، پرنس احمد عمر زئی کو ٹکٹ جاری کیے ہیں۔
بی این پی عوامی کے میر اسرار اللہ خان زہری اور سجاد ترین جب کہ جے یو آئی (ف) کے عبد الغفور حیدری، خلیل احمد بلیدی بھی مقابلے میں ہیں۔
ٹیکنوکریٹس کی نشست پر جے یو آئی کے کامران مرتضیٰ جب کہ بی اے پی کے نوید جان بلوچ، سعید احمد ہاشمی، محمد نواز نصر اور منظور احمد سامنے آئے ہیں۔
خواتین کی نشستوں پر نو امیدوار ہیں اور یہاں بھی بلوچستان عوامی پارٹی دونوں نشستیں جیتنے کی پوزیشن میں ہے۔ ایک اقلیتی نشست پر پانچ امیدواروں کے درمیان مقابلہ ہو گا۔