پاکستان میں وفاقی حکومت نے سینیٹ انتخابات رواں سال مارچ کے بجائے فروری میں کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔
حکومت کا کہنا ہے کہ ووٹوں کی مبینہ خریدو فروخت روکنے کے لیے 'شو آف ہینڈ' کے ذریعے الیکشن کرانے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور اس سلسلے میں سپریم کورٹ آف پاکستان سے رہنمائی حاصل کی جائے گی۔
اپوزیشن نے شو آف ہینڈ کے ذریعے پولنگ کو آئین کے منافی قرار دے دیا ہے جب کہ مبصرین کا کہنا ہے کہ سینیٹ انتخابات قبل از وقت ہوسکتے ہیں۔ تاہم مبصرین کے بقول انتخابات شو آف ہینڈ سے کرانے کے لیے آئین میں ترامیم کرنا ہوں گی۔
مبصرین کا یہ بھی ماننا ہے کہ ایسے اعلانات سے اپوزیشن اور حکومت کے درمیان موجود تناؤ میں اضافہ ہوگا اور اپوزیشن لانگ مارچ اور استعفوں کے معاملے پر مزید متحد ہوگی۔
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات شبلی فراز نے تصدیق کی ہے کہ وزیرِاعظم عمران خان کی زیر صدارت گزشتہ روز ہونے والے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں سینیٹ انتخابات مارچ کے بجائے فروری میں شو آف ہینڈ کے ذریعے کرانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
میڈیا سے گفتگو میں شبلی فراز کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کی ہدایات کی روشنی میں ہم نے ایک بل اسمبلی میں پیش کیا ہے اور وفاقی کابینہ کے اجلاس میں اس پر بحث ہوئی کہ وہ اس بل کو کس طرح پاس کرا سکتے ہیں۔ شبلی فراز کے مطابق اجلاس میں بل کی منظوری سے متعلق بحث کی گئی کہ آیا اس بل کو آئینی ترمیم، ایگزیکٹو آرڈر یا الیکشن کمیشن کے ذریعے پاس کروایا جائے۔ ان کے بقول حکومت نے طے کیا ہے کہ اس معاملے پر سپریم کورٹ سے رہنمائی لی جائے گی۔
'شو آف ہینڈ آئینی ترمیم کے بغیر ممکن نہیں'
سابق سیکریٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد کا کہنا ہے کہ ریٹائرڈ سینیٹرز کی میعاد اگلے سال 11 مارچ کو ختم ہوتی ہے۔ اس لیے 11 فروری سے 11 مارچ کے درمیان کسی بھی وقت سینیٹ الیکشن ہوسکتے ہیں۔
کنور دلشاد کا مزید کہنا تھا کہ سینیٹ کے الیکشن شو آف ہینڈ سے کرانے کے لیے آئین میں ترامیم کرنا پڑیں گی اور کسی قانون کے مطابق بھی شو آف ہینڈ نہیں ہوسکتا۔
کنور دلشاد کے بقول سینیٹ کے الیکشن میں کروڑوں روپے ‘ہارس ٹریڈنگ’ کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ اسی لیے وزیراعظم نے اس الیکشن کے لیے شو آف ہینڈ کی بات کی۔
لیکن اُن کے بقول حکومت نے دو، ڈھائی سال ضائع کر دیے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 226 میں لکھا ہے کہ وزیرِاعظم اور وزیرِاعلیٰ کے انتخابات کے علاوہ سب انتخابات سیکرٹ بیلٹ کے ذریعے ہوں گے۔ تاہم ان کے بقول، اٹارنی جنرل کا کہنا ہے کہ الیکشن ایکٹ کے تحت سینیٹ انتخابات ہوں گے۔
کنور دلشاد کا مزید کہنا تھا کہ اگر حکومت آرٹیکل 226 کے خلاف جائے گی یا آرڈیننس کے ذریعے تبدیلی لاتی ہے یا پھرریفرنس لائے گی، تو یہ بات غلط ہے۔ ان کے بقول حکومت کی منطق سمجھ سے بالاتر ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اٹارنی جنرل کا یہ کہنا کہ آرٹیکل 226 صرف صدارتی انتخاب کے لیے ہے ہماری سمجھ سے باہر ہے۔
کنور دلشاد نے کہا کہ سینیٹ کا انتخاب انتہائی پیچیدہ ہوتا ہے۔ یہ متناسب نمائندگی کے تحت ہوتا ہے اور ہر رکن کے لیے ترجیحات ہوتی ہیں،جس کے بعد گنتی ہوتی ہے، چیکنگ ہوتی ہے، یہ بہت پیچیدہ عمل ہے۔
کنور دلشاد کے بقول اگر آرٹیکل 186 کے تحت صدر کی طرف سے سپریم کورٹ کو ریفرنس جائے کہ آپ اس بارے میں فیصلہ کریں تو عدالت اس بارے میں یہ کہہ سکتی ہے کہ پارلیمنٹ ترمیم کر لے۔ لیکن اس کے علاوہ عدالت کو کوئی اختیار نہیں۔
'حکومت اگر عدالت میں گئی تو نیا پنڈورا باکس کھل جائے گا'
کنور دلشاد نے کہا کہ الیکشن ایکٹ 2017 میں سیکشن 205 سے لے کر 230 تک ترامیم کرنا ہوں گی۔ جن میں کہا گیا ہے کہ سینیٹ انتخاب ‘پراکسی’ کے ذریعے نہیں ہوسکتا۔ ان کے بقول ان کی رائے میں حکومت اگر عدالت میں گئی تو نیا پنڈورا باکس کھل جائے گا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ انہیں لگ رہا ہے کہ اگر سینیٹ انتخابات شو آف ہینڈ کے ذریعے کرانے کی ضد کی گئی تو آئین کی خلاف ورزی ہو جائے گی۔
سینیٹ انتخابات کے قبل از وقت انعقاد سے متعلق سوال پر کنور دلشاد کا کہنا تھا محض ایک ماہ پہلے الیکشن کرانے کو قبل از وقت نہیں کہا جا سکتا۔ 11 فروری سے 10 مارچ کے دوران الیکشن کسی بھی وقت ہو سکتا ہے۔ تاہم جنوری میں یہ الیکشن نہیں ہو سکتا۔
انہوں نے کہا کہ حکومت سینیٹ انتخابات نہیں کر اسکتی۔ یہ کام الیکشن کمیشن کا ہے اور چیف الیکشن کمشنر ہی اس کا شیڈول جاری کرے گا۔ وہ کسی صورت آئین سے انحراف نہیں کرسکتے اور آئین میں دیے گئے وقت پر ہی الیکشن کروائیں گے۔
'اپوزیشن تقسیم نہیں ہوگی'
تجزیہ کار مظہر عباس کہتے ہیں کہ اپوزیشن اس معاملے پر اپنا متفقہ لائحہ عمل تشکیل دے گی۔ ابھی تک انہوں نے اپنی حکمت عملی تشکیل نہیں دی۔ لیکن جیسے اقدامات حکومت کررہی ہے، اس سے اپوزیشن مزید متحد ہوگی۔
مظہر عباس کہتے ہیں کہ اس بارے میں بہت سے قانونی مسائل ہیں کیونکہ ایک ماہ قبل الیکشن کرانا بھی مسئلہ ہے اور اگر ایسا ہوا تو اپوزیشن عدالت کا رخ کرے گی اور عدالت ہی اس بارے میں فیصلہ کرے گی۔
ان کے بقول ایک بار پھر وہی بات سامنے آرہی ہے کہ سیاست دان اپنے فیصلے پارلیمنٹ میں نہیں کر پا رہے اور ہر معاملے میں عدالت کی طرف دیکھ رہے ہیں۔
مظہر عباس حکومت کے اس فیصلے کو بے جا سمجھتے ہیں۔ ان کے بقول ایک مہینہ پہلے الیکشن کرانے کا کوئی جواز نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ اپوزیشن تقسیم نہیں ہو رہی لیکن ان کا خیال ہے کہ سینیٹ کو خالی نہیں چھوڑنا چاہیے اور تمام سیاسی جماعتیں اس بات کے لیے راضی ہیں۔ کیونکہ اگر اسمبلیاں ٹوٹتی بھی ہیں تو سینیٹ برقرار رہے گی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اپوزیشن اس بات کے لیے تیار ہے کہ سینیٹ کے انتخاب میں باقاعدہ حصہ لیا جائے۔ حکومت کو واک اوور نہ دیا جائے اور اس الیکشن کے بعد اگر استعفے دینا بھی پڑیں تو دے دیے جائیں۔
اب تک سینیٹ انتخابات میں اراکین اسمبلی خفیہ رائے شماری کے ذریعے اپنا ‘سنگل ٹرانسفر ایبل ووٹ’ کاسٹ کرتے تھے اور علم نہیں ہوتا تھا کہ کس رکن اسمبلی نے کس امیدوار کو ووٹ دیا ہے۔
سنگل ٹرانسفر ایبل ووٹ میں اگر امیدوار کو مطلوبہ تعداد میں ووٹ مل جائیں تو باقی ووٹ اسی جماعت کے اگلے امیدوار کو منتقل ہو جاتے ہیں۔