سال 2020 کے دوران پاکستان میں کالعدم جماعت الدعوۃ سمیت دیگر انتہا پسند جماعتوں کے خلاف کریک ڈاؤن کرتے ہوئے کئی رہنماؤں کو گرفتار اور سزائیں سنائی گئیں۔
تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ پاکستان نے اپنی داخلی اور خارجہ پالیسیوں کو تبدیل کیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ریاستِ پاکستان انتہا پسند تنظیموں کے خلاف کارروائیاں کر رہی ہے۔
تجریہ کاروں کی رائے میں پاکستان نے عالمی دباؤ، عالمی سیاست، ملکی معاشی صورتِ حال اور دیگر عوامل کی وجہ سے اپنی پالیسیوں کو تبدیل کیا ہے اور اب ان پالیسیوں میں مستقبل قریب میں بھی کوئی تبدیلی نظر نہیں آ رہی۔
پنجاب میں دہشت گردی کے انسداد کی غرض سے قائم کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) پنجاب کے ترجمان کے مطابق صوبہ بھر میں 78 کالعدم تنظیموں کی نگرانی کی جا رہی ہے۔
ترجمان کے مطابق صوبہ بھر میں ایسے 1500 افراد کی بھی نگرانی کی جا رہی ہے جو فورتھ شیڈول میں شامل ہیں۔ ان کے اثاثے منجمد کر دیے گئے ہیں اور اِن کے اسلحے کے لائسنس بھی منسوخ کیے گئے ہیں۔
ترجمان سی ٹی ڈی پنجاب بتاتے ہیں کہ رواں سال سوشل میڈیا پر نفرت انگیز مواد پھیلانے والے 155 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے جن کے قبضے سے اسمارٹ فونز، لیپ ٹاپ اور دیگر سامان برآمد ہوا ہے۔
علاوہ ازیں 12 ہزار ممنوعہ مواد والی ویب سائٹس کی نشان دہی کی گئی ہے اور اُنہیں بند کرنے کے لیے پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی سے سفارش کی گئی ہے جن میں سے نو ہزار ویب سائٹس کو بند کر دیا گیا جب کہ دیگر سائٹس کی بھی نگرانی کی جا رہی ہے۔
تجزیہ کار پروفیسر ڈاکٹر رسول بخش رئیس کی رائے میں پاکستان نے اپنی پالیسیوں کو بین الاقوامی دباؤ اور اپنی خاطر تبدیل کیا ہے۔
اُن کے بقول ممبئی حملوں کے بعد سے پاکستان کی حکومت پر دباؤ تھا جب کہ ریاست نے خود بھی اپنی پالیسیوں کو حقیقی طور پر تبدیل کیا ہے۔
ڈاکٹر رئیس کے بقول بظاہر پالیسی یہ ہے کہ پاکستان، افغانستان اور کشمیر میں کسی بھی عسکریت پسند گروپ کو مدد فراہم نہیں کرے گا نہ ہی اس غرض سے پاکستان کی سر زمین کو استعمال کیا جا سکے گا۔
ان کے بقول پالیسی تبدیل ہوئی ہے لیکن کافی لوگ جو پہلے اُن کے ساتھ تھے اُن کو سمجھانے میں بڑی دیر لگی ہے جس میں سے کچھ نے متوازی پالیسیاں بنانے کی کوششیں کیں اور ناراض ہوئے جبکہ بہت سے لوگ تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) میں چلے گئے۔
ڈاکٹر رئیس سمجھتے ہیں کہ پالیسی بدلنے کی پاکستان نے بھاری قیمت ادا کی ہے۔
تجزیہ کار ڈاکٹر حسن عسکری سمجھتے ہیں کہ کسی بھی ریاست کی پالیسیاں مختلف عوامل اور مقامی ضروریات کے مطابق بنائی جاتی ہیں۔
اُن کی رائے میں جہاں تک پاکستان کی بات ہے وہ ملک کے اندر انتہا پسندانہ کارروائیوں کو کنٹرول کرنا چاہتا ہے۔ اسے بین الاقوامی سیاست کے رحجانات کو بھی دیکھنا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان میں انتہا پسندی اُس وقت سے پھیلی تھی جب عالمی سطح پر انتہا پسندی کو معاونت فراہم کی جا رہی تھی۔
حسن عسکری کہتے ہیں کہ پاکستان کی دلچسپی بھی چین پاکستان اقتصادی راہداری میں ہے۔ جس میں اِس قسم کی تنظیموں کو کھلی چھٹی نہیں دی جا سکتی کیوں کہ وہ حکومتی رِٹ کو چیلنج کرتی ہیں۔ پاکستان کی کوشش ہے کہ معاشی صورتِ حال کو بہتر کیا جائے کیوں کہ پاکستان کے بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر ہونے کی اُمید نظر نہیں آتی۔
ڈاکٹر عسکری کے بقول حکمران سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی چین، ایران اور افغانستان کے ذریعے سینٹرل ایشین ریاستوں تک معاشی رسائی ہو جائے گی جس سے لامحالہ ملک کی معاشی صورتِ حال بھی بہتر ہو گی۔ لہذٰا ملک کے اندر امن و امان اس مقصد کے حصول کے لیے ناگزیر ہے۔
ڈاکٹر رسول بخش رئیس سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی یہ پالیسی مستقل رہے گی جس میں پاکستان کا مؤقف ہے کہ وہ کشمیر اور افغانستان میں کوئی مداخلت نہ ہی کرتا ہے اور نہ ہی مستقبل میں کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
ترجمان کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ پنجاب کی جانب سے فراہم کردہ اعداد وشمار کے مطابق سال 2020 میں ٹیرر فنانسنگ کے تحت 40 مقدمات قائم کیے گئے ہیں۔ ان مقدمات میں 65 افراد کو گرفتار کر کے عدالتوں میں مقدمات چلائے جا رہے ہیں جب کہ اِن کی جائیدادوں کو قبضے میں لے لیا گیا ہے۔
سی ٹی ڈی کے مطابق رواں سال 50 مبینہ دہشت گردوں کو صوبہ پنجاب سے گرفتار کیا گیا ہے جو صوبے میں کارروائیاں کرنا چاہتے تھے۔ گرفتار کیے گئے دہشت گردوں کا تعلق لشکرِ جھنگوی، تحریکِ طالبان پاکستان، القاعدہ اور داعش سے بتایا جاتا ہے۔
ڈاکٹر رسول بخش رئیس کی رائے میں سی ٹی ڈی پنجاب کی تمام تو نہیں البتہ چند ایک کارروائیاں ایسی ضرور ہیں جن کو شک کی نگاہ سے دیکھا جا سکتا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر سی ٹی ڈی نے 50 کارروائیاں کی ہیں جن میں سے ایک آدھ صحیح نہیں ہوئی تو اِس کو غلط نہیں کہا جا سکتا۔
اُن کے بقول سی ٹی ڈی کی کارروائیاں میڈیا میں زیادہ نہیں آتیں، وہ نئی ٹیکنالوجی استعمال کر رہے ہیں اور انٹیلی جنس کے نظام کو بھی جدید کیا گیا ہے۔
پاکستانی حکام کا دعویٰ ہے کہ رواں سال بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں، فاٹا اور افغانستان سے آنے والے دہشت گردوں، ٹی ٹی پی کے افراد اور فرقہ ورانہ کارروائیوں میں ملوث افراد کے خلاف کریک ڈاؤن تیز کیا گیا۔
ڈاکٹر حسن عسکری کہتے ہیں کہ سی ٹی ڈی کا کام دہشت گردی پر قابو پانا ہے اور وہ کسی حد تک اس میں کامیاب بھی رہی ہے۔
ڈاکٹر حسن عسکری کے بقول سی ٹی ڈی نے حکومت کی جانب سے فراہم کردہ ایک پالیسی فریم ورک میں کام کرنا ہے۔ سی ٹی ڈی یہ بہتر جانتی ہے کہ کون سی پالیسی کب اور کہاں استعمال کی جائے گی۔
تجزیہ کار حسن عسکری سمجھتے ہیں کہ حالیہ سالوں میں مجموعی طور پر پاکستان میں امن و امان کی صورتِ حال بہت بہتر ہو گئی ہے۔
اُن کے بقول ایک وقت تھا کہ جابجا پولیس ناکے اور چیک پوسٹس نظر آتی تھیں، تاہم اب یہ بہت کم ہو گئی ہیں اور دہشت گردی کے واقعات بھی بہت کم ہو گئے ہیں۔
ڈاکٹر عسکری کے بقول اب دنیا کو بھی پاکستان سے متعلق اپنی رائے بدلنا ہو گی کیوں کہ اکا دکا دہشت گردی کے واقعات تو امریکہ، برطانیہ سمیت کسی بھی ملک میں ہو سکتے ہیں۔
رواں سال کن تنظیموں کے خلاف کیا کارروائیاں ہوئیں؟
انسدادِ دہشت گردی لاہور کی عدالت نے 22 جنوری کو جماعت الدعوۃ کے سربراہ حافظ محمد سعید کو ایک اور مقدمے میں سزا سنائی تھی۔ حافظ محمد سعید کو سی ٹی ڈی کی طرف سے درج مقدمہ نمبر 32/19 میں سزا سنائی گئی ہے۔
اس سے قبل بھی حافظ محمد سعید کے خلاف تین مقدمات کے فیصلے سنائے جا چکے ہیں۔
اے ٹی سی عدالتوں میں جماعت الدعوۃ کے رہنماؤں کے خلاف مزید مقدمات زیرِ سماعت ہیں جن میں شہادتوں اور جرح کا عمل مکمل کیا جارہا ہے۔
واضح رہے کہ جماعت الدعوۃ کے رہنماؤں کے خلاف صوبہ پنجاب میں سی ٹی ڈی کی طرف سے کل 41 مقدمات درج ہیں جن میں سے 32 کے فیصلے ہو چکے ہیں جب کہ باقی اے ٹی سی عدالتوں میں زیرِ سماعت ہیں۔
تجزیہ کار پروفیسر ڈاکٹر رسول بخش رئیس سمجھتے ہیں کہ جماعت الدعوة کے تمام ارکان انتہا پسندی میں ملوث نہیں ہیں۔ جن جن کے خلاف مقدمات ہیں، صرف اُنہیں ہی عدالتوں میں لے جایا گیا ہے۔
اُن کے بقول قانون نافذ کرنے والے اداروں نے آہستہ آہستہ جماعت الدعوة اور دیگر تنظیموں کو اسلحے سے پاک کرنا شروع کر دیا تھا۔ اُن پر پابندیاں لگائی گئیں اور اُن کے ادارے بھی سرکاری تحویل میں لے لیے گئے۔ اب ایسی تمام تنظیمیں چندہ بھی اکٹھا نہیں کر سکتیں۔
ڈاکٹر حسن عسکری کہتے ہیں کہ ریاستوں کی پالیسیاں ضروریات کے مطابق بدلتی رہتی ہیں جس میں کوئی حیرانی کی بات نہیں ہے۔
اُن کے بقول مستقبل میں پاکستان کی پالیسیاں کیا ہوں گی اِس بارے کوئی پیش گوئی تو نہیں کی جا سکتی۔ ریاستیں اپنی ضروریات اور حالات کے مطابق پالیسیاں بناتی ہیں۔
سی ٹی ڈی پنجاب نے کالعدم تنظیم جماعت الدعوة کے سربراہ حافظ محمد سعید اور جماعت کے دیگر مرکزی رہنماؤں کو گزشتہ سال گرفتار کیا تھا جن کے خلاف دہشت گردوں کی مالی معاونت کرنے کے الزام اور دیگر دفعات کے تحت مقدمات بنائے گئے تھے۔