اقوامِ متحدہ نے افغانستان کی حکومت اور طالبان کے درمیان امن مذاکرات میں پیش رفت کو سراہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ عالمی ادارے نے فریقین کو تشدد کم کرنے پر بھی زور دیا ہے۔
جرمنی نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں جمعرات کو افغان امن عمل میں پیش رفت کے حوالے سے قرار داد پیش کی۔ اس قرارداد کی 130 ممالک نے حمایت کی۔ جب کہ روس نے قرارداد کی مخالفت میں ووٹ دیا۔
چین، پاکستان اور بیلاروس نے ووٹنگ میں حصہ لینے سے اجتناب کیا۔ جب کہ 59 ممالک نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔
افغانستان کی صورتِ حال کے عنوان سے منظور ہونے والی 15 صفحات پر مشتمل قرارداد میں امن و مصالحت، جمہوریت، قانون کی حکمرانی، بہتر طرزِ حکمرانی، انسانی حقوق، انسدادِ منشیات، سماجی اور اقتصادی ترقی جب کہ علاقائی تعاون کا احاطہ کیا گیا تھا۔
اقوامِ متحدہ کی قرارداد میں بین الافغان مذاکرات اور حال ہی میں بات چیت کے قوائد و ضوابط پر اتفاقِ رائے کو سراہا گیا۔ لیکن اس کے ساتھ ہی تشدد میں ہونے والے اضافے کی بھی مذمت کی گئی۔
قرارداد میں افغان حکومت اور طالبان پر اعتماد کے فروغ اور تشدد کم کرنے کے اقدامات کا مشورہ دیا گیا ہے۔
افغانستان کی سیکیورٹی صورتِ حال پر قرارداد میں تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ طالبان بشمول حقانی نیٹ ورک، القاعدہ، داعش اور دیگر شدت پسند گروہوں کی پر تشدد کارروائیوں سے ملک کے استحکام کو درپیش خطرات سے نمٹنے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔
اقوامِ متحدہ میں یہ قرار داد ایک ایسے وقت میں منظور ہوئی ہے جب قطر کے دارالحکومت دوحہ میں افغان حکومت اور طالبان کی مذاکراتی ٹیموں کے درمیان بین الافغان مذاکرات کا ایجنڈا طے کرنے کے لیے بات چیت جاری ہے۔
افغانستان کا آئندہ سیاسی نظام جامع اور اسلامی ہونا چاہیے: طالبان
دوسری طرف طالبان کے نائب سربراہ ملا عبدالغنی بردار نے کہا ہے کہ افغانستان کا آئندہ سیاسی نظام جامع اور اسلامی ہونا چاہیے۔
'ہارٹ آف ایشیا سوسائٹی' سے گفتگو کرتے ہوئے ملا عبدالغنی برادر نے کہا کہ طالبان کی خواہش ہے کہ افغان تنازع کا حل بات چیت کے ذریعے ہو۔
ان کے بقول طالبان تمام معاملات کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کے لیے پُر عزم ہیں۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان کے آئندہ سیاسی نظام میں اسلامی اصولوں کے تحت خواتین کے حقوق، ذرائع ابلاغ کی آزادی اور دیگر ممالک سے دو طرفہ تعلقات کا تحفظ کیا جائے گا۔
طالبان رہنما کے بقول 12 ستمبر کو شروع ہونے والے بین الافغان مذاکرات میں پیش رفت ہوئی ہے۔ بات چیت کا ایجنڈا طے کرنے کے لیے قواعد و ضوابط پر اتفاق ہو چکا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اب بھی چیلنجز موجود ہیں جن میں اقوامِ متحدہ کی پابندی کی فہرست میں بعض طالبان رہنماؤں کے ناموں کا موجود ہونا اور طالبان کے مزید قیدیوں کی رہائی کا معاملہ شامل ہے۔
رواں سال فروری میں امریکہ اور طالبان کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے تحت طالبان اپنے مزید قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کرتے آ رہے ہیں۔ دوسری طرف افغان حکومت اور بین الاقوامی برداری طالبان پر زور دے رہی ہے کہ وہ تشدد میں کمی اور جنگ بندی کریں۔