رسائی کے لنکس

پاکستان میں مختلف مسالک کی ریلیاں، کیا فرقہ واریت کو ہوا مل رہی ہے؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستان کے مختلف شہروں میں حالیہ دنوں میں مختلف مذہبی جماعتوں کی جانب سے 'عظمتِ صحابہ' اور 'اہل بیعت' کے عنوانات سے بڑی ریلیوں اور مظاہروں کا اہتمام کیا گیا جس میں ہزاروں افراد شریک ہوئے۔

پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں تین بڑی ریلیاں نکالی گئیں۔ ان ریلیوں اور مظاہروں کا اہتمام ایسے وقت میں کیا گیا جب اسلامی مہینے محرم کے دوران پاکستان کے مختلف مسالک کے مابین بعض مسلکی اختلافات کے باعث تلخی میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

پاکستان میں اہلِ سنت مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے افراد 'عظمتِ صحابہ' جب کہ اہل تشیع مسلک سے تعلق رکھنے والے افراد 'اہل بیعت' کے فضائل بیان کرنے کے لیے مجالس کا اہتمام کرتے ہیں۔

تاہم بعض تجزیہ کاروں کو خدشہ ہے کہ رواں برس سوشل میڈیا پر ہونے والے بعض مباحثوں اور مختلف مسالک کے علما کے بیانات سے ملک میں دوبارہ فرقہ واریت کو فروغ دینے کی منظم کوشش ہو رہی ہے۔

جمعے کو دیوبند مسلک سے تعلق رکھنے والے افراد نے کراچی کی شارع قائدین پر 'عظمتِ صحابہ' کانفرنس کا اہتمام کیا۔ اس جلسے میں جہاں دیگر مطالبات کیے گئے وہیں سوشل میڈیا پر مقدس شخصیات کی توہین روکنے کے لیے سخت قانون سازی کا بھی مطالبہ کیا گیا۔

اسی طرح ہفتے کو بریلوی مسلک اور پھر اتوار کو اہلِ حدیث مسلک کی جانب سے بھی ایسی ریلیاں اور جلوس نکالے گئے جس میں کم و بیش ایسے ہی مطالبات سامنے آئے ہیں۔

'عظمتِ صحابہ' ریلی میں سیکڑوں افراد شریک ہیں۔
'عظمتِ صحابہ' ریلی میں سیکڑوں افراد شریک ہیں۔

ہفتے کو مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے چیئرمین مفتی منیب الرحمان کی صدارت میں ہونے والی عظمت صحابہ اور اہل بیعت مارچ میں شریک سابق وفاقی وزیر اور نظام مصطفیٰ پارٹی کے سربراہ حاجی حنیف طیب نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ یہ ریلی ردِ عمل کے طور پر نکالی گئی۔

اُن کے بقول حکومتی وعدے کے باوجود مقدس شخصیات کی توہین پر کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔

اُن کا کہنا ہے کہ ہمارا ایمان ہے کہ تمام پیغمبر، پیغمبر اسلام کے اہلِ خانہ اور ان کے قریبی ساتھیوں سمیت سب کا احترام لازم ہے۔

تاہم اُن کے بقول محرم میں اسلام آباد اور کراچی میں کچھ ایسے واقعات میں دیکھا گیا ہے کہ یہ احترام ملحوظِ خاطر نہیں رکھا گیا اور ان خدشات سے حکومت کو آگاہ بھی کیا لیکن ان پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔

حاجی حنیف طیب نے بتایا کہ ان گزارشات کی شنوائی نہ ہونے پر وہ سڑکوں پر نکل کر احتجاج کرنے پر مجبور ہوئے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ تمام تنظیموں کا یہ احتجاج مکمل طور پر پرامن رہا ہے اور یہ ان کا جمہوری حق بھی ہے۔

حاجی حنیف طیب کا کہنا ہے کہ اشتعال انگیز اور گستاخانہ تقاریر پر نظر رکھنا حکومت کا فرض ہے۔ اُن کے بقول حکومت کو یہ ذمہ داری احسن طریقے سے ادا کرنی چاہیے تاکہ کسی کو موقع نہ ملے کہ وہ دوسروں کے جذبات سے کھیلے۔

دوسری جانب اہل تشیع مکتبہ فکر کے افراد حالیہ واقعات اور بڑھتے ہوئے تناؤ کا تعلق مشرقِ وسطیٰ کے بعض ممالک سے جوڑتے ہیں۔

شیعہ علما کونسل کے مرکزی رہنما علامہ شبیر حسن میسمی کہتے ہیں پاکستان میں فرقہ ورایت کو فروغ دے کر بعض عناصر اسرائیل کو تسلیم کرانا چاہتے ہیں۔

اُن کے بقول سازشی عناصر پاکستان میں عدم استحکام پھیلا کر اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں، لیکن یہ عناصر اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوں گے۔

شبیر حسن میسمی کے بقول سوشل میڈیا اور دیگر پلیٹ فارمز پر ہونے والی تلخی عالمی سیاسی کھیل کا حصہ ہے جو جان بوجھ کر کیا جا رہا ہے۔

تاہم ان کے بقول مجموعی طور پر ہر تمام مکاتبِ فکر کے علما کے درمیان اس بات پر مکمل ہم آہنگی پائی جاتی ہے کہ اس طرح کے اقدامات سے بچا جائے جس سے فرقہ وارانہ نفرت اور منافرت پھیلے۔

انہوں نے واضح کیا کہ اس مسئلے کا حل غلط زبان استعمال کرنے سے پرہیز اور ایسا کرنے والوں کو روکنے میں ہے جب کہ قانون کو اپنا راستہ لینا چاہیے اور بلا امتیاز قوانین کا اطلاق ہونا چاہیے۔

سینئر تجزیہ کار اویس توحید کا کہنا ہے کہ ملک میں فرقہ واریت یا مذہبی معاملات میں ایک دوسرے کے لیے عدم برداشت کی جڑیں تقریباً چالیس سال سے پنپ رہی ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ 1980 کی دہائی میں جب اس وقت کے فوجی آمر جنرل ضیا الحق نے مذہب کے نام پر ریاستی طاقت سے لوگوں کو دبانے کی کوشش کی تو اس کے بعد فرقہ واریت میں اضافہ ہوا۔

اویس توحید کہتے ہیں کہ ایک خاص مکتبۂ فکر کے لوگ ریاست کے ساتھ منسلک تھے یا ان کا گٹھ جوڑ تھا، اور اس کے بعد ہم نے دیکھا کہ یہ افراد طاقت ور ہوتے چلے گئے اور پھر ایسے عناصر کا ایک مسلح چہرہ بھی ہمیں افغان اور 'کشمیر جہاد' میں نظر آیا۔

اویس توحید کا کہنا ہے کہ ملک کے سابق فوجی آمر نے اپنے ہی آنگن میں جو انتہا پسندی کے بیج بوئے تھے وہ اب تناور درخت کی شکل اختیار کر چکے ہیں، چاہے وہ مدارس اور مساجد پر قبضوں کی لڑائی ہو یا توہین آمیز خاکوں پر مشتعل احتجاج میں ہنگامہ آرائی کی صورت میں سامنے آنے والے نتائج ہوں۔

اُن کے بقول انہی لڑائیوں اور کشمکش کا تعلق شام اور عراق اور دیگر عرب ممالک کی سیاست اور وہاں موجود تنازعات سے بھی براہِ راست جڑا ہوا ہے۔

اُن کے بقول اسی وجہ سے پاکستان سے کچھ افراد مقدس مقامات کی حفاظت کی غرض سے جب کہ کچھ ایسے ہی حکومتوں کے خلاف اور بعض حکومت کے حق میں برسر پیکار ہونے کی غرض سے مشرق وسطٰی گئے۔

ان کے مطابق یہ بہت ہی خطرناک رجحان ملک میں مسلسل بڑھ اور پنپ رہا ہے۔

خیال رہے کہ حالیہ عرصے میں مختلف مسالک سے تعلق رکھنے والے افراد پر مقدس شخصیات کی توہین یا نفرت انگیز تقاریر کے الزام میں دو درجن سے زائد مقدمات درج کیے گئے ہیں۔

تجزیہ کاروں کے مطابق فرقہ واریت کے خدشات کو دُور کرنے کے لیے ضروری ہے کہ کالعدم تنظیموں اور ان کے کارکنوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھی جائے۔

بعض ماہرین کا خیال ہے کہ حالیہ عرصے میں فرقہ واریت میں کمی آئی ہے تاہم اس پر مستقل نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔

  • 16x9 Image

    محمد ثاقب

    محمد ثاقب 2007 سے صحافت سے منسلک ہیں اور 2017 سے وائس آف امریکہ کے کراچی میں رپورٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ کئی دیگر ٹی وی چینلز اور غیر ملکی میڈیا کے لیے بھی کام کرچکے ہیں۔ ان کی دلچسپی کے شعبے سیاست، معیشت اور معاشرتی تفرقات ہیں۔ محمد ثاقب وائس آف امریکہ کے لیے ایک ٹی وی شو کی میزبانی بھی کر چکے ہیں۔

XS
SM
MD
LG