صرف تین ہفتے پہلے کی بات ہے کہ کرونا وائرس کی عالمی فہرست میں بھارت مریضوں کی تعداد کے لحاظ سے چھٹے نمبر پر تھا. لیکن اب ورڈو میٹر اور جانز پاپکنز یونیورسٹی کی ویب سائٹس یہ ظاہر کر رہی ہیں کہ بھارت میں گزشتہ تین ہفتوں میں مریضوں کی تعداد میں اتنی تیزی سے اضافہ ہوا ہے کہ وہ اس فہرست میں تیسرے نمبر پر آ گیا ہے۔
بھارت ان ملکوں میں شامل ہے جنہوں نے کرونا وائرس کے ابتدائی دنو ں میں ہی وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے سخت لاک ڈاؤن نافذ کیا تھا جس سے لوگوں میں شکایات بھی پیدا ہوئیں۔ اس کے بعد حکومت نے بتدریج پابندیاں نرم کر دی ہیں۔
بھارت میں جمعے کی سہ پہر تک ملک بھر میں متاثرین کی مجموعی تعداد 8 لاکھ 21 ہزار ہو چکی تھی، جب کہ ہلاکتیں 22 ہزار سے بڑھ گئی تھیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ تعداد ہر تین ہفتوں کے بعد دگنی ہو رہی ہے۔
بھارت میں اب روزانہ ڈھائی لاکھ ٹیسٹ کیے جا رہے ہیں، جب کہ صحت کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک ایسے ملک میں جس کی آبادی ایک ارب 40 کروڑ کے قریب ہو، ٹیسٹوں کی یہ تعداد بہت کم ہے۔
بھارت میں اب تک ایک کروڑ دس لاکھ کرونا وائرس کے ٹیسٹ ہو چکے ہیں جو ماہرین کے نزدیک ملک کی آبادی کے تناسب سے بہت کم ہیں۔ وہ یہ خدشہ ظاہر کرتے ہیں کہ پازیٹو کیسز کی اصل تعداد نامعلوم اور کہیں زیادہ ہے۔
حالیہ جائزوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ دارالحکومت دہلی اور ملک کے مالیاتی مرکز ممبئی میں وائرس کہیں زیادہ تیزی سے پھیل رہا ہے۔
وائرس کے پھیلاؤ میں تیزی کے باوجود بھارتی حکام اسے تشویش ناک قرار نہیں دے رہے۔ بھارت کی وزارت داخلہ نے جمعرات کے روز اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ وائرس پر نظر رکھنے اور اسے محدود کرنے میں ان کی پالیسی کامیابی سے آگے بڑھ رہی ہے۔ اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا بھارت میں کرونا وائرس سے ہر دس لاکھ میں 13 افراد ہلاک ہو رہے ہیں جب کہ امریکہ اور برازیل میں یہ شرح دس لاکھ میں بالترتیب 400 اور 320 اموات ہیں۔
ناقدین سرکاری اعداد و شمار سے اتفاق نہیں کرتے۔ ان کا کہنا ہے کہ بھارت میں حقیقی گنتی معلوم کرنا ناممکن ہے، کیونکہ ملک میں اعداد و شمار اکھٹے کرنے کا کوئی مستند اور قابل بھروسہ انتظام موجود نہیں ہے۔
بھارت کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 43 فی صد اموات کا تعلق 30 سے 60 سال کی عمر کے گروپ سے ہے۔ کرسچن میڈیکل کالج ولور کے ایک ماہر وبائی امراض ڈاکٹر جے پرکاش کہتے ہیں کہ یہ وبا بڑی عمر کے افراد کے لیے زیادہ مہلک ہے۔ غالباً وائرس سے بڑی عمر کی ہلاکتوں کا ڈیٹا یا تو نامکمل ہے یا اکھٹا نہیں کیا جا سکا۔
خبررساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بھارت میں صحت سے متعلق ڈیٹا ریاستی سطح پر جمع کیا جاتا ہے۔ جنوبی ریاست کیرالہ وہ ریاست ہے جہاں سب سے پہلے کرونا وائرس کے تین مریض تشخیص ہوئے تھے۔ اسے ایک ماڈل ریاست کے طور پر لیا جاتا ہے۔ وہاں قرنطینہ مراکز قائم ہوئے اور ان سے رابطے میں رہنے والوں کا ریکارڈ رکھا گیا اور اسی ریاست میں کرونا وائرس کے ٹیسٹوں میں بھی تیزی دکھائی گئی، جب کہ دوسری جانب دہلی ہے۔ اگرچہ یہ دارلحکومت ہے لیکن جس طرح وہاں عالمی وبا کا بندوبست کیا گیا اور جس تیز رفتاری سے وہاں وائرس پھیلا، اسے شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ حتیٰ کہ اسپتالوں میں کرونا کے مریضوں کے لیے جگہ نہ رہی اور پھر ریلوے کی 500 بوگیوں کو عارضی اسپتال میں تبدیل کرنا پڑا۔ جارج ٹاؤن یونیورسٹی میں اقتصادیات کے پروفیسر دشنو داس کہتے ہیں کہ بھارت میں اعداد و شمار جمع کرنے کا کوئی مرکزی نظام موجود نہیں ہے۔
عالمی وبا کے پھیلاؤ کے دوران چین کے ساتھ سرحدی تنازع بھی صورت حال پر اثرانداز ہوا اور حکام کی توجہ اس اہم مسئلے سے ہٹ کر سرحدوں پر مرکوز ہو گئی۔ اسی طرح کاروباروں کی بندش سے پیدا ہونے والی بے روزگاری اور اقتصادی حالات بھی وبا کے پھیلاؤ پر اثر انداز ہوئے۔
بھارت کا کہنا ہے کہ وہ کرونا وائرس کے خلاف عالمی جنگ میں اپنا کردار نبھا رہا ہے اور اس وقت اس کی تیار کردہ 7 ویکسینز مختلف تجرباتی مراحل میں ہیں جن میں بھارتی بائیو ٹیک کی ایک ویکسین بھی شامل ہے جس کے بارے میں بھارت کی میڈیکل ریسرچ کونسل نے دعویٰ کیا ہے کہ انسانوں پر اس کے تجربات کے نتائج ملک کے یوم آزادی 15 اگست کو سامنے آئیں گے۔
پونا کا سیرن انسٹی ٹیوٹ دنیا بھر میں ویکسن تیار کرنے کا سب سے بڑا مرکز ہے۔
ایک بھارتی تھینک ٹینک نتی آیوگ کا کہنا ہے اس وقت ملک میں روزانہ ایک ہزار وینٹی لیٹر اور وبا سے تحفظ کے چھ لاکھ آلات بن رہے ہیں جس نے بھارت کو چین کے بعد اس شعبے میں دنیا کا دوسرا سب سے بڑا ملک بنا دیا ہے۔