بھارت کی وزارتِ خارجہ نے کہا ہے کہ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وزیرِ اعظم نریندر مودی کو گروپ آف سیون (جی سیون) ممالک کے آئندہ اجلاس میں شرکت کی دعوت دی ہے۔
جی سیون یا گروپ آف سیون دنیا کے سات ترقی یافتہ ممالک کی تنظیم ہے جس میں امریکہ کے علاوہ کینیڈا، برطانیہ، فرانس، جرمنی، اٹلی اور جاپان شامل ہیں۔ اس تنظیم کے سربراہان کا سالانہ اجلاس مارچ یا اپریل میں ہوتا ہے تاہم رواں برس کرونا وائرس کے باعث تاحال اس کا سربراہ اجلاس نہیں ہو سکا ہے۔
بھارتی وزارتِ خارجہ نے منگل کو ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ وزیرِ اعظم مودی اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان ٹیلی فونک رابطہ ہوا ہے۔ بھارتی وزیرِ اعظم نے امریکی صدر کو کہا ہے کہ جی سیون اجلاس کی کامیابی یقینی بنانے کے لیے بھارت کو امریکہ اور دیگر ممالک کے ساتھ کام کرنے پر خوشی ہو گی۔
نریندر مودی نے جی سیون کی توسیع کے بارے میں صدر ٹرمپ کے خیالات کو تعمیری اور دور اندیشی پر مبنی قرار دیا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ہفتے کو اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ وہ جی سیون اجلاس کو ستمبر تک ملتوی کر رہے ہیں جو اس سے قبل جون میں کیمپ ڈیوڈ میں شیڈول تھا۔ امریکی صدر کا کہنا تھا کہ وہ آسٹریلیا، روس، جنوبی کوریا اور بھارت کو بھی جی سیون ممالک کے اجلاس میں شامل کرنا چاہتے ہیں۔
بھارت کی وزارتِ خارجہ کے مطابق امریکی صدر نے جی سیون اجلاس میں مزید ممالک کو شامل کرنے کا عندیہ دیا تھا۔ اسی تناظر میں انہوں نے بھارتی وزیرِ اعظم کو بھی شرکت کی دعوت دی ہے۔
وزارتِ خارجہ کے بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ امریکی صدر سے نریندر مودی کی گفتگو کے دوران دونوں رہنماؤں نے اپنے اپنے ملکوں میں کرونا وائرس کی صورتِ حال پر تبادلۂ خیال کیا۔ اس کے علاوہ بھارت اور چین کے درمیان سرحدی تنازع اور عالمی ادارۂ صحت میں اصلاحات کی ضرورت پر بھی گفتگو ہوئی۔
ادھر وائٹ ہاؤس سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور بھارتی وزیرِ اعظم کے دوران جی سیون میٹنگ، کرونا وائرس کی صورتِ حال اور علاقائی سیکیورٹی کے مسائل پر گفتگو ہوئی۔
البتہ وائٹ ہاؤس کے بیان میں بھارتی وزیرِ اعظم کو جی سیون اجلاس میں شرکت کی دعوت سے متلعق کوئی بات نہیں کی گئی۔
وائٹ ہاؤس کے مطابق صدر ٹرمپ نے وزیرِ اعظم مودی کو بتایا کہ امریکہ کی جانب سے بھارت کو امداد میں دیے جانے والے 100 وینٹی لیٹرز کی پہلی کھیپ رواں ہفتے بھارت پہنچ جائے گی۔
صدر ٹرمپ نے وزیرِ اعظم مودی سے گفتگو کے دوران اپنے دورۂ بھارت کو بھی یاد کیا جو انہوں نے رواں سال فروری میں کیا تھا۔ امریکی صدر کا کہنا تھا کہ اس تاریخی دورے نے دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات کو نیا رخ دے دیا ہے۔
دوسری جانب چین نے بھارت سمیت دیگر ملکوں کو گروپ آف سیون میں شامل کرنے کے منصوبے پر سخت رد عمل ظاہر کیا ہے۔ رپورٹس کے مطابق چین کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان سے جب اس سلسلے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ بیجنگ کے خلاف دائرہ تنگ کرنے کی کوئی بھی کوشش ناکام اور غیر مقبول ہو گی۔
اس معاملے پر عالمی امور کے ماہر نئی دہلی کے ایک تجزیہ کار رہیس سنگھ کہتے ہیں کہ صدر ٹرمپ بھارت اور دیگر ملکوں کو جی سیون میں اس لیے شامل کرنا چاہتے ہیں تاکہ چین کو آئسولیٹ کیا جا سکے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر روس جی سیون میں شامل ہو سکتا ہے تو بھارت کیوں نہیں۔ بھارت کی معیشت روس سے بڑی ہے۔
ان کے خیال میں اگر بھارت جی سیون میں شامل ہوتا ہے تو وہ ترقی پذیر ملکوں کی قیادت اور نمائندگی کر سکتا ہے اور ان کے مسائل اور ضرورتوں کو اٹھا سکتا ہے۔
رہیس سنگھ نے کہا کہ اگر بھارت گروپ آف سیون میں شامل ہوتا ہے تو وہ ترقی یافتہ دنیا کا رکن اور معیشت سے متعلق عالمی فیصلوں اور پالیسیوں کا حصہ بن سکتا ہے۔
چین کے اعتراض سے متعلق انہوں نے کہا کہ یہ کوئی جیو پولیٹیکل ایشو نہیں ہے کہ چین اس پر اعتراض کرے۔ اگر بھارت جی سیون کا حصہ بننے جا رہا ہے تو چین کو اس پر اعتراض نہیں کرنا چاہیے۔
رہیس سنگھ نے کہا کہ 'کووڈ 19' کی وجہ سے عالمی سطح پر لوگوں کا چین سے اعتماد اٹھا ہے اور بھارت کو جو ایک بڑا موقع مل رہا ہے تو چین کو لگتا ہے کہ بھارت اس سے آگے نکل رہا ہے۔ یہی بات چین سے ہضم نہیں ہو رہی۔
عام طور پر جی سیون کا صدر ایک یا دو سربراہان مملکت کو خصوصی مدعو کی حیثیت سے سربراہان اجلاس میں شرکت کی دعوت دیتا ہے۔
گزشتہ سال فرانس کے صدر نے نریندر مودی کو خصوصی مدعو کی حیثیت سے اجلاس میں شرکت کے لیے بلایا تھا۔